Latest Posts

Media Section

Photo Gallery

Literature

Pamphlets

Monday, August 25, 2014

پریس ریلیز - مورخہ ۲۵ اگست ۲۰۱۴ء - علامہ المشرقیؒ اور نظریہ آزادی کانفرنس


لاہور( ) آج پاکستان کو عظیم مفکر مشرق حضرت علامہ عنایت اللہ خان المشرقی ؒجیسے عالم باعمل رہنماکی ضرورت ہے۔ متحدہ ہندوستان کے مایہ ٔ ناز فرزند رینگلر سکالر ، بیچلر سکالر اور فائونڈیشن سکالر صاحب ’’تذکرہ‘‘ اور بانی ٔ خاکسارتحریک کے یوم وفات کے موقعے پر خراج تحسین پیش کرنے نہیں آئے بلکہ آج کے دن ہمیں انہی کی راہ پر چلتے ہوئے نشان منزل کی طرف سیدھا صف ہوکر قطار بند ہوکر اپنی عظمت رفتہ کے حصول کا سفر شروع کرنا ہے۔
پاکستان آج ۶۸ سال کا ہوگیا ہے ۔ مگر اب اس خود فریبی کے ساتویں عشرے کے اختتام کے قریب آتے وقت چمکتے ہوئے خوابوں نے آنکھوں کو جھلسا کے رکھ دیا ہے۔ خواب تو درکنار لوگ اپنے سامنے کا کوئی منظر دیکھنے کی جسارت بھی نہیں کر سکتے۔ بارودسے بھری فضا میں قومی ترانوں کا سرکاری شور شرابہ بھی کسی بھوکے اور بیمار کی بے قابو آہ و بکا کی طرح ہی سنائی دیتا ہے۔ زندگی اور حرارت سے محروم جسم کس قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یہ ملی نغموں کی نہیں نوحوں اور مرثیوں کی سرزمین بن چکی ہے۔ یہ ’چاند زمیں‘ کب کی گہنا چکی۔ یہ ’پھول وطن‘ کھلنے سے قبل ہی کب کا مرجھا چکا۔ اس کی مٹی میں لعل ناپید ہیں اور بم بارود کاشت کیے جاتے ہیں۔ شیروانیوں میں ملبوس حکمران ہراساں مسکراہٹوں کے باوجود لیڈر وں سے زیادہ جلاد دکھائی دیتے ہیں۔ بھوک، بیماری اور غذائی قلت کے ساتھ ساتھ بد امنی، ٹارگٹ کلنگ، جعلی آپریشنوں، دہشت گردی، فرقہ واریت اور ڈرون حملوں میں بغیر کسی جرم کے اپنے عزیزوں کی لاشیں اٹھانے والے اور ششدر نگاہوں اور پشیمان دھڑکنوں سے ٹی وی سکرینوں پر مناظر دیکھنے والے بھی اگر پاکستانی ہونے پر فخر کرنے کے مغالطے میں مبتلا ہو جائیں تو اسے کربناک نفسیاتی بیماری کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
وزیرستان سے ہجرت کرنے والے کسمپرسی کی حالت میں بنوں یا ڈیرہ اسماعیل خان پہنچنے والے ہزاروں گھرانوں کی حالتِ زار کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم گزشتہ 68 سال سے ایک ہی چوراہے پر کھڑے ہیں۔ سیلاب، زلزلوں اور آپریشنوں میں بے گھری اور جلا وطنی کاٹنے والے لاکھوں نفوس کے لیے بھلا آزادی کا کیا مفہوم ہو سکتا ہے۔ دس لاکھ سے زائد لوگ اس وقت بھی خیرات کے منتظر ہیں۔ ان خیالات کا اظہار قائد خاکسارتحریک ڈاکٹر صبیحہ المشرقیؒ نے علامہ کی ۵۱ ویں یوم وفات کے موقع ’’علامہ المشرقی ؒ اور نظریۂ آزادی ‘‘ کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہے۔
خاکسارتحریک کی خاتون رہنما نے مزید اپنے پُر مغز خطاب میں کہا کہ مملکتِ خداداد میں ابھی حال ہی میں تھر کے علاقے میں 700 (سرکاری اعدادوشمار)سے زائد انسان بھوک کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے۔ 3 کروڑ 90 لاکھ سے زائد انسانوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ نام نہاد آزادی کے وقت 5000 کیوبک فی کس پانی میسر تھا۔ آج 2014ئ￿ میں یہ کم ہو کر صرف 1500 کیوبک فی کس رہ گیا ہے۔ 8 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو 24 گھنٹوں میں بمشکل ایک دفعہ کھانا نصیب ہوتا ہے۔ پاکستان کا ہر پیدا ہونے والا بچہ ایک لاکھ روپے سے زائد کا مقروض پیدا ہو رہاہے ۔ !
62 فیصد سے زائد دیہی آبادی کو بنیادی ضروریات کے لیے ایڑیاں رگڑنی پڑتی ہیں۔ 5 سال سے کم عمر کے ہر 1000 بچوں میں سے 99 زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ سالانہ 5 لاکھ کے لگ بھگ خواتین زچگی کے دوران مر جاتی ہیں۔ 80 فیصد سے زائد آبادی غیر سائنسی علاج کراتی ہے۔ ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ ہیپاٹائٹس جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہیں۔ تعلیم کے شعبے کی حالت اس سے بھی زیادہ دگر گوں ہے۔ تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے پاکستان221 ممالک میں سے 180 ویں نمبر پر ہے۔ 40 فیصد سے زائد بچے سکول ہی نہیں جا سکتے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق صرف 3 فیصد ہی کالج تک پہنچ پاتے ہیں اور ان میں سے صرف ایک فیصد گریجوایشن کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں HEC کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں پاکستان کی ایک یونیورسٹی بھی شامل نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود حکمران انتہائی ڈھٹائی سے یہ واویلا کرنے پر مصر ہیں کہ ’ہم زندہ قوم ہیں‘ اور ترقی کی طرف سفر تیزتر ہوتا جا رہا ہے۔
حقیقی صورتحال تو یہ ہے کہ زندہ ہونا تو کجا ہم ابھی ایک قوم بھی نہیں ہیں۔ یہ آزادی جس کا آج ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے وہ برطانوی سامراج کے ساتھ کسی منظم اور متحد جدوجہد میں برسرِ پیکار ہو کر حاصل نہیں کی گئی تھی بلکہ ان کی خوشامد اور خیرات کے ذریعے ملی تھی اس لیے قومی تشخص یا وحدت کے برعکس وقتی جھانسوں اور مفادات کے ذریعے مختلف قومیتوں پر مبنی ایک مصنوعی وفاق تشکیل دیا گیا جس میں معاشی ناہمواری اور انحصار کی وجہ سے قومی احساسِ محرومی کم ہونے کی بجائے وقتاً فوقتاً مسلسل بڑھتی جار ہی رہی ہے اور آج صورتحال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ نظریہ پاکستان نامی مفروضے کے لیے تاریخ کے عجائب گھر میں بھی کوئی مرتبان خالی نہیں ہے۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد Neo colonialism (نونوآبادیاتی) نظام کو متعارف کروانا سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے معاشی اور سیاسی ارتقا کا ناگزیر مرحلہ تھا۔ یہ لولی لنگڑی آزادیاں سامراجی پالیسی کا نتیجہ تھیں تاکہ براہِ راست فوجی قبضے کے ذریعے مہنگی لوٹ مار کے برعکس مقامی گماشتہ حکمرانوں کی خدمات حاصل کی جائیں اور لاگت کو کم سے کم کر کے لوٹ مار کی شرح میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکے۔ سامراجیوں نے 200 سال کے براہِ راست قبضے سے اتنا مال نہیں بٹورا تھا جتنا گزشتہ 67 سالوں کی اس خیراتی آزادی کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے۔ اس کی سب سے بہترین اور حالیہ مثال IPPs سے لی جا سکتی ہے جو 20 سال کے اندر محض 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے بدلے 35 ارب ڈالر سے زائد کا سرمایہ بیرونی بینکوں میں منتقل کر چکی ہیں جبکہ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ جوں کا توں ہے بلکہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اسی طرح معدنیات اور کارپوریٹ فارمنگ کے شعبے میں علاقائی اور عالمی قوتوں کی لوٹ مار کی شرح دنیا میں شاید سب سے زیادہ ہے۔ اور یہی نہیں کہ اس لوٹ مار کے ذریعے ملکی وسائل کا ضیاع معمول بن چکا ہے بلکہ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ اس لوٹ مار میں ملوث مختلف سیاسی ، مذہبی اورسامراج کی کاسہ لیس قوتوں کی آپسی لڑائیوں اور تضادات کی وجہ سے خانہ جنگیاں اور انتشار ملکی سیاست کا معمول بنتا جا رہا ہے جس میں بے گناہ اور معصوم ہزاروں لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ یہ تو سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خاصیت ہے کہ ہر چیز کی کوئی قیمت ضرور ادا کرنی ہوتی ہے۔ یہ انتشار، بھوک، بیماری، قتل و غارت اور اذیتیں سب اس آزادی کے دام ہی تو ہیں جو اب تیسری کے بعد چوتھی نسل کو بھی چکانے پڑ رہے ہیں۔
انھوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ ان حالات میں علامہ المشرقی کا دیا ہوا نظریہ ٔ آزادی اُس محلہ وار نظام میں پناہ جس نے چشم زدن میں ہندوستان میں خاکسارتحریک کے پلیٹ فارم سے مسلمانان ہند میں آزادی کی ایک ایسی لہر بپا کردی جس نے انگریز جیسی قوت کو خوفزدہ کردیا آ ج اس مسائلستان پاکستان کو محلہ وار نظام کے تابع ہی درست کیا جاسکتا ہے جس کے لئے پاکستان کے ہر نوجوان کو کمر باندھ کر اصل آزادی کے لئے گلی گلی کوچہ کوچہ سے نکلنا ہوگا ۔
قائد تحریک کے علاوہ کانفرنس کے شرکاء سے نائب قائد تحریک انجینئر نثار خان، ضیغم المشرقیؒ ڈپٹی سیکریٹر ی جنرل ، متعمد خصوصی قاسم الکریم ، ڈاکٹر بشیر اختر، خاکسارعلی حیدر، عفنان ملک، خاکسار اقبال عابد، خاکساریونس بھٹی ، خاکسار عبدالستار اختر آبادی ، خاکسار عابد ضیا ، خاکسار مصطفی جٹ، خاکسار شوکت جٹ، خاکسار شبیر سندھو، خاکسار ملک شہباز اور دیگر سالاران نے بھی خطاب کیا۔
خاکسار میڈیا سیل لاہور
ان پیج فارمیٹ میں پریس ریلیز ڈاؤن لوڈ کریں۔

No comments:

Post a Comment

Designed By Blogger Templates