Latest Posts

Media Section

Photo Gallery

Literature

Pamphlets

Monday, August 18, 2014

علامہ المشرقیؒ غلبۂ اسلام کا نقیب اور آزادی ہند کا سرخیل - ڈاکٹرمحمد بشیر اختر

لاہور- ڈاکٹر محمد بشیر اختر علامہ المشرقی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے جن انسانوں سے کوئی بڑا کام لینا ہوتا ہے تو اس کام کے لئے منتخب افراد ابتدا ہی سے اپنے کردار اور سوچ کے باعث دوسرے انسانوں سے امتیازی حیثیت کے حامل ہوا کرتے ہیں ان کی ذہنی بلندی اور قوت عمل بے مثال ہوتی ہے۔ وہ اپنی تخلیقی صلاحیت اور قابل عمل اور نتیجہ خیز پروگرام سے قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔
غلام آباد ہندوستان میں ایک نادر روز گار انسان حضرت علامہ المشرقی پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی تجویز وتدبیر اور خدا داد علمی اور عملی صلاحیت سے محکوم ہندوستان کو انگریزوں کے جابر انہ تسلط سے آزاد کروا کر انگریز قوم کے غلبے کو ہمیشہ کے لئے دریائے ٹیمز کی لہروں میں غرق کر دیا۔بہت سے ایسے لوگ جو قوم کی راہنمائی   کرنے کے لئے نمودار ہوئے راستے کی مشکلات اور موانعات کے اثر سے بسااوقات متزلزل ہوئے ان کی فکر اور عمل میں مدوجزر آئے لیکن علامہ المشرقی کاذہن شروع سے لے کر آخر تک اپنی تخلیقی استعداد کے عروج اور ربط کا بے مثال مرقع رہا ہے۔ حضرت علامہ المشرقی نے صرف پندرہ برس کی عمر میں اپنے زمانہ ٔ طالبِ علمی میں خریطہ کے نام سے شاعری کی ایک کتاب لکھ کر اسی حقیقت کا انکشاف کیا کہ قوم کے زوال کے دور میںبڑے بڑے شاعر پیدا ہوئے جنہوں نے قومی زوال پر مرثیہ خوانی تو خوب کی لیکن قوم کو اس زوال سے نکالنے کی ان میں لیاقت ہرگز نہ تھی۔نوحہ گری کی فصاحت و بلاغت سے قوم واہ واہ ہی کرتی رہی لیکن عمل سے کوسوں دور ہو گئی۔ اس نو عمر نوجوان نے صرف اٹھارہ برس کی عمر میں آٹھ ماہ کی قلیل مدت میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔ اے ریاضی کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا جسے آج تک کوئی نہ توڑ سکا۔ اور بالآخر غیر مسلموں کو کہنا پڑا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی مسلمان حساب میں تمام دنیا سے آگے ہیں اور صوبے میں اوّل آئے۔
1906؁ میں یہ ہونہار طالب علم مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے عازم انگلستان ہوا اور صرف سات سال کی قلیل مدت میں مکینیکل انجینئرنگ۔طبعیات۔ریاضی اور السنہ شرقیہ کے امتحان رشک آمیز کامیابی سے پاس کر کے تمام دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔اور لندن کے تمام اخبارات بڑھ چڑھ کر عنایت اللہ خاں کو خراج تحسین پیش کرنے لگے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد اپنی کامیابی کا پرچم بلند کر کے واپس ہندوستان آگئے۔ اس دوران وزیرہند نے وائسرائے ہند کو تاردیا کہ ہونہار ہندوستانی سکالر عنایت اللہ خاں واپس ہندوستان آرہا ہے اس کی آنکھیں بتاتی ہیں کہ یہ کچھ کرنا چاہتا ہے اس جیسی ذہانت کا آدمی جس قوم میں بھی ہو خطرناک ہوتا ہے لہٰذا اسے ہر ممکن اپنانے کی کوشش کی جائے الغرض یہ طالب علم تکمیل علم کے بعد واپس ہندوستان آیا تو اسے ملازمت دینے کے لئے پورا ہندوستان چشمِ براہ تھا۔ جس میں دو ریاستوں کے والیوں نے اپنی اپنی ریاستوں کی وزارت عظمیٰ کی پیش کش کی لیکن آپ نے کہا کہ میں شخصی ملازمت نہیں کروںگا۔یورپ اور انگلستان میں اپنی بے پناہ کامیابی کے جھنڈے گاڑ نے والا یہ سکالر حکومت سرحد کے محکمہ تعلیم میں ملازم ہو کر اسلامیہ کالج پشاور کا پرنسپل مقرر ہو گیا۔ اس طرح حکومت برطانیہ کی انتظامی مشین کو سمجھنے کا قدرت کی طرف سے بھرپور موقع مل گیا۔یہ وہ وقت تھا کہ ہندوستان انگریز کے پنجۂ اِستبد اد میں ہچکیاں لے رہا تھا اور مطلع سیاست پر انگریز کے اپنے بنائے ہوئے مہرے براجمان تھے جنہوں نے انگریزوںکا حق وفاداری کرتے ہوئے آزادی کے نام پر قوم کو اپنے دام تذویر میں جکڑ کر مسحور کر رکھا تھا اور آزادی کی کرن کہیں بھی نمودار نہیں ہورہی تھی محکومی اور مایوسی کے اسی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں صرف عنایت اللہ خاں المشرقی کی شخصیت ہی ایک چراغ تھا جس نے اپنی روشنی سے غلام آباد ہندوستان کو منور کرنا تھا۔ الغرض ملازمت کے دوران ترقی کر کے آپ وائسرائے ہند کے انڈرسیکرٹری کے عہدہ پرفائز ہوئے۔ اور اسطرح انگریزی حکومت کے تمام اسرار و رموز سے آگاہی حاصل کی اسی دوران پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی جس میں سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہو گیا۔ اور مسلمانوں کی مرکزی خلافت تحلیل ہو گئی اور تمام دنیا کے مسلمان ایک مرکز پر متحد ہونے کی بجائے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر محکوم ہو گئے 1920؁ میںآپ نے انگریز حکومت کی طرف سے سرکا خطاب اور کابل میں سفارت کی پیشکش کو ٹھکرا کر ملازمت سے چھٹی لیکر اپنی شہرہ آفاق کتاب تذکرہ لکھنا شروع کی۔ جس میں قرآن حکیم کی تعلیم اور قوموں کے عروج و زوال کے قانون کو واضح کیا گیا ہے۔ تذکرہ1924؁ میں شائع ہو کر تمام دنیا کے مشہور عالموں‘ سائنسدانوں اور حکمرانوں کو پیش کیا گیا۔ دنیا کے صاحب علم انسانوںنے تذکرہ پڑھنے کے بعد اپنی رائے سے مطلع کیا۔ ان میں سے صرف دو عالموں کی رائے پیش کی جا رہی ہے۔
تذکرہ کے متعلق ہالینڈ کے مشہور سائنس دان ڈکٹر جے۔ ایس بلجان نے یہ رائے دی کہ میں توریت مقدس کو سب سے بڑی آسمانی کتاب اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سب سے بڑا عالم فطرت یقین کرتا تھا اور انگلستان کے فلسفی راجر بیکن کی کتاب نودم آرگنم کو سب سے بڑی زمینی کتاب سمجھتا تھا۔ لیکن تذکرہ پڑھنے کے بعد میری رائے یہ ہے کہ تذکرہ دنیا کی سب سے بڑی کتاب ہے اور عنایت اللہ خاں سب سے بڑا عالم فطرت ہے۔دوسری رائے حضرت امام السنوسی نے طرابلس کی پہاڑیوں میں مورچہ زن۔اٹلی کی فوجوں کے ساتھ حالت جنگ میں تذکرہ پڑھ کر دی۔ اور مطالبہ کیا کہ عنایت اللہ خاں جس طرح تم نے قرآن پاک کو سمجھا ہے تذکرہ کی باقی جلدیں لکھ کر ہمیں بھی سمجھا دو نہیں تو قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں تمہارا گریبان ہو گا اور میرا ہاتھ ہو گا۔ الغرض تذکرہ فطرت کے قانون کو عیاں کرنے اور قوموں کی بقا اور فنا اور موت و حیات پر ایک شاہکار کتاب ہے۔ اور دنیا ایسی تحریر پھر پیدا نہ کر سکے گی۔ دنیا کے تمام علمی ادبی اور سیاسی حلقوں میں تذکرہ کی وساطت سے ایک ہیجان پیدا ہو گیا۔
1926؁ میں مصرمیں موتمری اسلامی کی کانفرنس ہوئی اس میںصاحب تذکرہ محمد عنایت اللہ خاں المشرقی کو بھی مدعو کیا گیا اس عظیم کانفرنس میں دنیا بھر کے ہوشمند اور صاحب علم مسلمان رہنمائوں نے شمولیت کی وہاں پر آپ کو بھی خطاب کی دعوت دی گئی آپ نے اس کانفرنس میں عربی زبان میں خطاب کیا جو کہ خطاب مصر کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔اس خطاب میں آپ نے مسلمان راہنمائوں کو قابل عمل پروگرام دیا۔ اس کانفرنس کی صدارت کا اعزازبھی آپ کو حاصل ہوا۔ جامعہ الازہرکے علمانے آپ کو علامہ کے خطاب سے نوازا۔اب آپ علامہ محمد عنایت اللہ خاں المشرقی کے لقب سے ملقب ہوئے جبکہ آپ کی عمر اس وقت صرف 38برس تھی کانفرنس کے اختتام کے بعد آپ جرمنی تشریف لے گئے وہاں پر طبعیا ت کے ماہر سائنس دان آئن سٹائن سے ملاقات کی۔ اس کے بعد ہٹلر سے ملاقات ہوئی ۔ ہٹلر نے دوران ملاقات علامہ صاحب کو بتایا کہ میں نے آپ کی کتاب تذکرہ کا بغور مطالعہ کیا ہے اور تذکرہ میں درج قوموں کے عروج و زوال اور فتح و شکست کے قانون پر عمل پیرا ہوںاور اپنی جماعت کی بنیاد تذکرہ کے بتائے ہوئے اصولوں پر رکھی ہے اور آپ ہمارے ساتھ مل کر ہمارے عوامی جلسوںسے خطاب کریں چنانچہ علامہ صاحب نے جرمنی کے مختلف شہروں میں منعقدہ عوامی اجتماعات میں اپنے خیالات کا اظہار کیا جرمنی کے اخبار نے لکھا کہ ایک غلام قوم کا پروفیسر جرمنی کو آزادی کاسبق دیتا ہے۔جرمنی سے واپسی پر آپ ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے اپنا لائحہ عمل تیار کرتے رہے اور ملازمت کوخیر آباد کہہ کر 1930؁میں اپنی کتاب اشارات میں قوم کے سامنے پیش کر دیا۔ اور خاکسار تحریک کے نام سے عملی پروگرام کا اجرا ء کر دیا۔ خاکسار تحریک کے قیام کے وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی کوئی بھی مؤثر جماعت نہیں تھی اور جو تھیں وہ مسلمانوں کو متحد کرنے کی بجائے تقسیم کر کے دشمن کے عزائم پورے کرنے میں نادانستہ طور پرمعاون بن رہی تھیں۔
خاکسار تحریک کا قیام غلام آباد ہندوستان میں انگریزوں جیسی خون آشام حکومت کے دہشت ناک تسلط کے ہوتے ہوئے فی الحقیقت ایک خدائی معجزہ سے کم نہ تھا ۔ خاکسار تحریک کے قیام کے بعد علامہ المشرقی کی آوازپرآزادی کی تڑپ رکھنے والے مسلمان نوجوان جوق در جوق خاکسار تحریک میں شامل ہو کر اصلاح نفس، اطاعت امیر، خدمت خلق اور سپاہیانہ زندگی کے حامل بنتے گئے۔ اوردیکھتے ہی دیکھتے پشاور سے راس کماری تک مسلمان نوجوانوں کی قطاریں رواں دواں ہو گئیں اور ہندوستان کی فضاچپ راست کی آوازوں سے گونجنے لگیں۔ انگریز چونکہ حکمران تھے اور خاکسار تحریک کی روزافزوں بڑھتی ہوئی صفوں کو دیکھ رہے تھے اور متوحش تھے۔ اس لیے خاکسار وں کی آزمائش کے لئے پہلا محاذلکھنؤمیں شیعہ سنی فسادات کی آگ کو ہوا دے کر کھولا گیا۔ خاکسار اپنے امیر حضرت علامہ المشرقی کے حکم پر لکھنؤ پہنچنا شروع ہوئے اور یوپی حکومت کی بھڑکائی ہوئی فسادات کی اس آگ کو اپنے خون سے ٹھنڈا کر دیا اور صرف 6خاکسار شہداء کی قربانی سے مسلمانوں کے دونوں فرقوں میں امن قائم کر کے یوپی کی کانگریسی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ خاکسار یوپی سے فاتحانہ تقدم سے واپس اپنے گھروں میں آگئے۔ انگریز یو پی میں اپنی حکمت عملی میں ناکام ہو گیا۔ اب خاکسار تحریک کے مرکز لاہور پنجاب میں سر سکندر حیات وزیراعظم پنجاب کو شہہ دے کر دوسرا محاذ گرم کیا گیا۔ سر سکندر حیات اپنی تین پشتوں سے انگریز کے نمک خوار اور مسلمانوں سے غداری کرنے والے خاندان سے تھا اپنے آقا ولی نعمت کے اشارہ کو پاکر خاکسار تحریک سے خون ریز مجادلہ پر تیار ہو گیا۔ اس وقت دوسری جنگ عظیم یورپ میں چھڑ چکی تھی۔ اس جنگ کے دوران تحفظ ہند کے قانون کی آڑ میں خاکسار تحریک پر پابندی لگا دی گئی۔ اس پابندی کو حضرت علامہ المشرقی نے مداخلت فی الدین قرار دیا اور خاکساروں کو لاہور میں جمع ہونے کا حکم دیا اور خود وائسرائے ہند سے اس کی غیر قانونی پابندی کو اٹھانے کی غرض سے بات چیت کے لئے دہلی روانہ ہو گئے۔ خاکسار لاہور کی مساجد میں معتکف تھے۔ 19مارچ1940؁کے روز اونچی مسجد بازارحکیماں لاہور سے313مجاہدوں کا جیش بادشاہی مسجدمیں نماز کی ادائیگی کے لئے روانہ ہوا۔ تھانہ ٹبی کے قریب ڈپٹی کمشنر۔ ایس پی اور ڈی ایس پی کی قیادت میں پولیس راستہ روکے کھڑی تھی۔ خاکسار جیش چپ راست کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے پولیس کے گھڑ سوار دستے خاکساروں سے ٹکرا گئے خاکساروں نے اس مڈھ بھیڑ میں پولیس والوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔راستہ صاف ہونے کے بعد خاکسار آگے بڑھتے رہے اور نوگزہ چوک میں پولیس کے مسلح دستوں سے خونریز مقابلہ شروع ہو گیا۔ خاکسار بے جگری سے پولیس کی گولیوں سے ٹکراتے رہے خاکساروں کے بیلچے پولیس کے سپاہیوں پر قہر خداوندی بن کر برستے رہے اس مجادلے میں انگریز ڈی۔ ایس پی مسٹربیٹی بمعہ اپنے دو انگریز افسروں کے ہلاک ہو گیا۔ڈپٹی کمشنر مسٹر گنیسفورڈ زخمی ہو کرنالی میں جا گرا۔ الغرض1857؁کی جنگ آزادی کے بعد خاکسار تحریک کے مجاہدوں کا انگریز کے ساتھ یہ پہلا مقابلہ تھا۔ جس میں70کے قریب خاکسار شہید ہوئے اور بے شمار زخمی ہوئے بیسیوں پولیس والے بھی ہلاک اور زخمی ہوئے۔خاکسار تحریک خلاف قانون قرار دیدی گئی اور قائد تحریک حضرت علامہ المشرقی کو دہلی سے گرفتار کر کے ہندوستان کے جنوبی شہر مدارس کے قلعہ دہلو رجیل میں قید کر دیا گیا۔ تمام ہندوستان میں ہزارہا سالاروں اور خاکساروں کو گرفتار کر لیا گیا۔
19مارچ کے خون آشام واقعہ کے بعد اگر مسلمان قوم متحد ہو کر ان خاکسار شہدا کے خون کا قصاص لینے کے لئے میدان میں اتر کر انگریز حکومت سے ٹکرا جاتی تو1940؁کے سال میں ہی انگریز ہندوستان سے بھاگنے پر مجبور ہو جاتے اور پورا ہندوستان آزاد ہو کر مسلمانوں کے زیر نگیں آجاتا۔لیکن مسلمان قوم جہاد سے جی چرا کر بزدل بن چکی تھی اور قصاص کے اسلامی اصول کو بھول چکی تھی جس کی وجہ سے خاکسار قوم کی پشت پناہی کے بغیر میدان میں بے یارومددگار رہ گئے۔ اور بزدل قوم خاکساروں کو اس آزمائش کے وقت تنہا چھوڑ کربزدل اور انگریز کے سدھائے ہوئے راہنمائوں کے پیچھے لگ گئی۔ اور قرار داد لاہور کے طلسم سامری سے مسحور ہو گئی اور یوں آزادی کی وہ منزل جو کہ چند قدم پر تھی سینکڑوں سال دور ہو گئی۔
19مارچ کے اس ہولناک ٹکرائو کے نتیجے میں خاکسار تحریک کو چونکہ خلاف قانون قرار دیا گیا تھا اور بانی ٔتحریک حضرت علامہ المشرقی گرفتار ہو چکے تھے اس کے بعد انگریز نے ہوم رولز کے پروگرام یعنی انتخابی اسسٹنٹ کو ہندوستان میں مروج کرنے کے لئے کانگریس اور مسلم لیگ کی پیٹھ ٹھونک کر میدان میں اتار دیا۔1860؁ میں ہندوستان پر مکمل قبضہ کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی بہادر نے ہندوستان کو براہ راست تاج برطانیہ کی تولیت میں دے دیا۔1862؁میں لندن کی پارلیمنٹ میں مسٹر جان برائیٹ نامی ایک ممبر پارلیمنٹ نے ایک بل پیش کیا۔ اس بل میں کہا گیا کہ اب سونے کی چڑیا ہندوستان تاج برطانیہ کا ایک ماتحت ملک ہے انگریزوں نے اقتدار وہاں مسلمانوں سے چھینا ہے لہٰذا آئندہ بھی انگریزوں کو مسلمانوں سے خطرہ ہو گا۔ ہندوئوں سے نہیں ۔ چونکہ ہندوستان میں دوبڑی قومیں بستی ہیں یعنی ہندو اور مسلمان۔دونوں قومیں گزشتہ ایک ہزار سال سے آپس میںباہمی رواداری،بھائی چارہ اور حسن سلوک سے گزارہ کر رہی ہیں۔ ہندو مسلمانوں سے فی الجملہ مطمئن ہی رہے ہیں لہٰذا جب تک انگریز ہندوستان پر حکومت کریں تو دونوں قوموں کو آپس میں لڑاتے رہیں گے۔ اور جب کبھی ہمیں ہندوستان چھوڑنا پڑا تو اسے تقسیم کر کے چھوڑ دیں یہ بل لندن کی پارلیمنٹ نے 1862؁میں منظور کر لیا اور یہ بل آئندہ برطانیہ کی ہندوستان پر حکومت کی تمام پالیسی کی بنیاد بنا۔ اس پالیسی کے تحت انگریزوں نے تمام ہندوستان پرعوامی جگہوں پر پانی کے مٹکوں پر ہندو پانی اور مسلم پانی تحریر کروا دیا۔ اس نفرت انگیزپالیسی کو فروغ دینے کیلئے سر سید احمد خان، سید امیر علی، مرزا قادیانی اور بہت سے انگریز افسر دن رات کام کرتے رہے تا آنکہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا ہونی شروع ہو گئی۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کو مستقل طور پر علیحدہ علیحدہ رکھنے کے لئے1885؁میں لارڈہوم کی زیر نگرانی ایک سیاسی جماعت کانگریس کی بنیاد ڈالی گئی ۔ اس کے بعد1906؁میں ڈھاکہ میں لارڈ الیگزینڈرکی سرپرستی میں میر جعفر کی برصغیر کی نسل سے ڈھاکے کے نوابوں سر سلیم اللہ، مولوی مہدی علی اور مولوی مشتاق حسین کو محسن الملک اور وقار الملک کے خطابوں سے نواز کر ان کے ہاتھوں دوسری سیاسی جماعت مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ دونوں جماعتوں نے انگریز کی سوچ کو روبہ عمل لانے کے لئے خوب خوب منافرت کی سیاست کو فروغ دیا جس کے نتیجہ میں انگریز بکری کے لیلے کی طرح معصوم بن گیا۔ اور ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے اور اپنے مشترکہ دشمن کے ہاتھوں کٹ پتلی بن گئے۔اور بقول علامہ المشرقی مسلم لیگ اور کانگریس دوسوکنوںکی طرح آپس میں لڑنے اور انگریز خاوند کو خوش کرنے میںایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے میں لگ گئیں ۔ الغرض1857؁ کی جنگ آزادی کے83برس بعد علامہ المشرقی کے تربیت یافتہ خاکسار انگریز حکومت کے مدِ مقابل تھے اور لاہور میں مسلح پولیس سے دست بدست جنگ میں3انگریزوں کو ہلاک کر کے جتا دیا تھا کہ اب ہندوستان پر انگریز کے لئے قبضہ برقرا ررکھناممکن نہیں ہے۔ انگریز اپنی چالوں اور اپنے سدھائے ہوئے ہندو اور مسلمان لیڈروں کے طرز عمل سے مطمئن تھا کہ ہندوستان میں انگریزی راج کے لئے اب کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔ اب چین ہی چین ہے۔لیکن19مارچ1940؁ کے دن لاہور میں خاکساروں سے ٹکرائوں کا معرکہ اس قدر دھماکہ خیز تھا کہ جس نے انگریزی حکومت کے مظبوط ترین قلعہ میں زلزلہ برپا کر دیا ۔ اور اسی معرکہ میں جو انگریز افسروں کی ہلاکت سے وائسریگل لاج دہلی سے لیکر ویسٹ منسٹر ایبے اور10ڈائوننگ سٹریٹ سے بکنگھم پیلس لندن کے سبھی مکینوںمیں کہرام مچ گیا۔
آج برطانیہ کی کرۂ ارض پر پھیلی ہوئی بیسیوں نوآبادیوں میں کہیں بھی کوئی انقلابی تحریک نہیں تھی جو انگریزوں کے لئے خطرہ بنتی۔ یہ صرف ہندوستان تھا برطانیہ کے تاج کا سب سے بڑا اور گراں قدر ہیرا جسے مسلمانوں سے چھیننے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے260سال لگے اور ان لڑائیوں میں55لاکھ انگریز ہلاک ہوئے اس متحدہ ہندوستان میں ایک خطرناک شخص عنایت اللہ خاں المشرقی نے ایک خطرناک تحریک پیدا کر کے اس سب سے بڑے ہیرے کو انگریزوں سے واپس چھیننے کے لئے خطرناک مجاہد پیدا کئے جو آخر کار معرکہ لاہور کے دوران دنیا کی سب سے بڑی حکومت کے اقتدار کے لئے خطرہ بن گئے۔ خاکسار تحریک سے اس ہولناک ٹکرائو کے بعد انگریزوں کے لئے اب صرف ایک ہی راستہ باقی بچا تھا کہ علامہ المشرقی اور خاکسار تحریک کے بالمقابل اپنے مرغانِ دست آموز کو ہندوستانیوں کا مسلمہ راہنما بتائے اور اکثریت اورا قلیت کے تصورکو جمہوریت کے ذریعے اجاگر کر کے ہندوئوں اور مسلمانوں کو انتخابی میدان میں دھکیل کر ہندوستان کی تقسیم کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر انگلستان کی راہ لے۔ گویا معرکہ لاہور سیاسیات ہند میں انگریزوں کو اپنے منصوبے تقسیم کرداورچھوڑ دوپرقبل ازوقت عمل پیرا ہونے کا واحد محرک تھا۔
داخلی محاذ پر خاکسار تحریک انگریز کے لیے خطرہ بن چکی تھی اور خارجی محاذ پر جرمن اور جاپان کی بہادر افواج سلطنت برطانیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا رہی تھیں۔ برطانیہ عظمیٰ کی متحدہ بادشاہت جس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا ٹکڑے ٹکڑے ہو رہی تھی اور انگریز قوم نڈھال ہو کر اپنے زخم چاٹ رہی تھی الغرض انگریز حکومت نے اپنے مہرے نئے سرے سے ترتیب دیے اور ہندوستان کو انقلاب کی بجائے انتخابی سیاست کی راہ پر چلا کر دونوں قوموں کے درمیان نفرت انگیز خلیج پیدا کر دی اور سرزمین ہندوستان جس پر مسلمان حکمرانوں نے عدل و انصاف کے چراغ جلا کر شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پر پانی پلایا۔ خواجہ اجمیری،علی ہجویری،فرید گنج شکر،عثمان مروندی،بختیار کاکی ،علی احمد صابری اور خواجہ نظام الدین اولیانے توحید کی زمزمہ یاریاں کر کے اس دھرتی کو منور کر کے ہندواور مسلمان کو باہم شیر و شکر کر دیا۔
مہاراج کوی داس، بھگت کبیر اور یایاتانگ نے محبت کے گیت گائے ہاں یہ ولیوں،اوتاروں،رشیوں،بھگتوں،ابدالوں اور عادل حکمرانوں کی سر زمین بد طنیت اور مکار انگریز کی انسانیت کش سیاست کے نتیجے میں آگ اور خون اگلنے لگی۔ ہندو اور مسلمان ایک ہزار سال کی ہمسائیگی اور رواداری کو بھول کر بے دریغ ایک دوسرے کو کاٹنے لگے۔ قتل و غارت، عصمت دری اور گھیرائو جلائو کا وہ ہولناک تماشا شروع ہوا کہ سطح زمین یکسر کپکپا اٹھی۔انگریز نے350سال تک اس سر زمین کا نمک کھایا تھا ہندوستان کی دولت اس کے وسائل اور افرادی قوت کے بل بوتے پر ہی اس نے باقی دنیا کو زیر نگیں کیا تھا وہ ایک فاتح اور بہادر اور بادشاہ قوم تھی اس کے شاہانہ اخلاق کے شایان نہ تھا کہ وہ ہندوستان کی سر زمین کو فرقہ وارانہ فسادات سے زہر آلود کرتی۔ لیکن انگریز قوم کے خمیر میں بے بہمیّت وحشت اورخود غرضی کے سوا تھا ہی کیا اسی لیے یہاں سے رخصت ہوتے وقت نمک حرامی کا مظاہرہ کیے بغیر نہ رہ سکی اور اپنے رذیل کردار کو تاریخ عالم پر ثبت کرنے میں ادنیٰ سی شرمندگی محسوس نہ کی۔
حضرت علامہ عنایت اللہ خاں المشرقی جیل میں ر ہ کر بھی قوم کو انگریز کی چالوں سے باخبر کرتے رہے۔ لیکن قوم وقت کے سامری کے طلسم میں کچھ اس طرح گرفتار ہوئی کہ حق اور باطل، درست اورنادرست کی تمیز کھو بیٹھی اور اپنی ہی قوم کے تین ٹکڑوں میں بِکھری ہوئی اپنے بھائیوں کی خون آلود لاشوں اور جلے ہوئے گھروں پر جشن آزادی برپا کر دیا۔
1940؁ سے لیکر1947؁ تک کے سات سالوں میں علامہ المشرقی اور خاکساروں نے پورے ہندوستان میں انگریز کے لگائے ہوئے اس تماشے کو بے نقاب کرنے کیلئے بے پناہ محنت کی قریہ قریہ۔ گائوں گائوں ،شہرشہر جا کر بانیٔ تحریک حضرت علامہ عنایت اللہ خاں المشرقی قوم کو جھنجوڑتے رہے کہ مسلمانوں اس تقسیم کے نتیجے میں تم برباد ہو جائو گے۔ تمہارے ناقابل اتصال تین ٹکڑے ہو جائیں گے تمہاری عزت نیلام ہو جائے گی تمہارا مال و اسباب لوٹ لیا جائے گا۔ خدا کے سپاہی بن کر میدان جنگ میں انگریز اور ہندو سے بزوراپنا حق چھین لو۔ آزادی بھیک میں نہیں ملتی تلوار کی دھار اور خون سے ملتی ہے لیکن قوم اور اس کے لیڈر بھیک میں ملے ہوئے ٹکڑوں کو ہی عطیۂ خدا وندی سمجھتے رہے۔
اگست1947؁کو ہندوستان تقسیم ہو گیا۔اور حکومت ان لوگوں کے سپرد ہوئی جن کی تربیت بقول علامہ المشرقی انگریزی طریق تخیل پرہوئی تھی اس غلط اور نقصان دہ تقسیم کے بعد حضرت علامہ المشرقی نے نامکمل پاکستان کی تکمیل اور اسے دنیا کی مضبوط ترین سلطنت بنانے اور ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے تحفظ کے لئے نئے سرے سے کام شروع کیا۔ تقسیم کے ساتھ ہی پاکستان کی شہ رگ کشمیر کا قضیہ شروع ہو گیا۔اور دونوں طرف کشمیر کے حصول کے لئے لڑائی شروع ہو گئی علامہ المشرقی بمعہ اپنے خاکسار رفقاء کے کشمیر کی اس جنگ میں بنفس نفس شامل ہوئے اور دوران جنگ زخمی بھی ہوئے۔علامہ صاحب پکار پکار کر کہتے رہے کشمیر کو ابھی بزورِشمشیر حاصل کرو اوراسے اقوام متحدہ میں نہ جانے دینا اگر مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں چلا گیا تو یاد رکھو کشمیر قیامت تک حاصل نہ ہو سکے گا۔ لیکن وقت کے حکمران وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خاں نے مسئلہ کشمیر اپنی ہندو بیوی گل رعنا کے کہنے پر اقوام متحدہ کے سپرد کر دیا۔ اور بقول سعدی شیرازیؔ

اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل مارا نیحال ہندوش نحیشم سمر قند و بخارا را!

یہ تھے قائد ملت شہید ملت جناب خاں لیاقت علی خاں وزیر اعظم پاکستان جنہوں نے اس جدید دور میں مندرجہ بالا اس شعر کی تفسیر سچ مچ کر کے پاکستان کی شہ رگ کو ہمیشہ کیلئے ہندو کے سپرد کر دیا جسکا خمیازہ آج تک پاکستان ،پانی کی قلت،بجلی کی کمی اور خوفناک سیلاب کی شکل میں بھگت رہا ہے اور نہ جانے کب تک بھگتتا رہے گا۔
1950؁میں علامہ صاحب نے ’’انسانی مسئلہ ‘‘نامی مقالہ لکھ کر دنیا کے ہوشمند انسانوں کو چونکا دیا اس مقالہ میں صاحب علم یعنی سائنس دانوں کو حکومت کرنے کا حق حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی۔کمیونزم اورمغربی جمہوریت کے قربِ عظیم کا پردہ چاک کیا گیا۔ طبقاتی انتخاب میں غریب کی حکومت قائم کرنے کا قابل عمل تصور دیا گیا۔ الغرض اس مقالہ سے دنیا کی حکومتوں میں شدید اضطراب پیدا ہو گیا اوربیرونی دبائو پر حکومت پاکستان نے علامہ صاحب کو گرفتار کر کے بغیر مقدمہ چلائے جیل میں ڈال دیا ۔ لیاقت علی کے قتل کے بعد آپ کو رہائی ملی دوران قید آپ نے حدیث القرآن لکھ کر سائنس اور قرآن میں حیرت انگیز تطابق پیدا کر دیا سائنس دانوں کو تسخیر کائنات کی طرف اکسایا۔آج خلا میں چاند پر انسان کے قدم اور مریخ پر صید بازیاں علامہ المشرقی کے مقالہ انسانی مسئلہ اور حدیث القرآن کے مرہون منت ہیں جسے آپ نے دنیا کے پیس ہزار سانئس دانوں کو بھیجا تھا۔ قید سے رہائی کے بعد آپ نے مغربی اور مشرقی پاکستان کو یک جان و دو قالب بنانے اور پاکستان کو تاقابل تسخیر ملک بنانے کے لئے لازمی فوجی تربیت کا پروگرام دیا۔ مگر پاکستان کے بے ضمیر اور بزدل حکمران اس ملک کو لوٹنے اور لاقانونیت کا گڑھ بنانے میں ہی لگے رہے لیکن علامہ المشرقی صاحب عوامی بھلائی اور ملکی سلامتی کے لئے ہر تجویز اور داخلی اور خارجی خطرات سے حکمرانوں کو آگاہ کرتے رہے آپ کی ان خدمات کا صلہ حکمرانوں نے قید و بند کی صورت میں دیا۔ جب قید و بند کی سختیاں بھی اس مرد مومن کے حوصلوں اور ارادوں کو متزلزل نہ کر سکیں تو حکمرانوں نے اس توانا آوازکو خاموش کرنے کے لئے قتل کے مقدمہ میں ملوث کر دیا۔ اور بدنام زمانہ شاہی قلعہ کے عقوبت خانے میں ڈال کر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی۔ یہ ظلم اس شخص پر کیا جا رہا تھا جس نے قوم سے ایک پائی بھی لیے بغیر اپنی ساری زندگی غلبہ اسلام اور مسلمانوں کی آزادی کے لئے وقت کردی تھی۔
اس مقدمہ ٔ قتل میں علامہ صاحب کے رفقاء کا کردار وفا کی تاریخ میں سورج کی طرح جگمگاتا رہے گا اور اپنے امیر کی زندگی کی خاطر جان پر کھیل جانے والوں کے مشام جاں کو معطر اور ان کے حوصلوں کو گرماتا رہے گا۔ جانثارانِ مشرقی نے بے مثال حوصلے اور تدبر سے استغاثہ کے بخیے ادھیڑ کر حکومت اور پولیس کی سازش کے تمام تانے بانے کو تار تار کر کے گچھاباندھ کر پھینک دیا اور علامہ المشرقی اس مقدمہ سے بمعہ اپنے رفقاء کے باعزت رہا ہو گئے۔ لیکن قید کی ان ناقابل برداشت سختیوں کے باوجود انکا ذہن غیر متزلزل رہا۔دوران قید آپ نے تکملہ کے نام سے ایک کتاب 2جلدوں میں تحریر کی۔ جس میں نزول قرآن اور صاحب قرآن کی سیرت کو اسلامی تاریخ میں پہلی دفعہ مربوط انداز میں پیش کیا گیا۔ قرآن جس ترتیب سے نازل ہوا تھا اسی ترتیب کو از سر نو دنیا کے سامنے پیش کر کے ثابت کیا کہ قرآن اور سیرتِ رسولؐ کو سمجھنا بے حد آسان ہے۔آج تکملہ کے مطالعہ کے بعد قرنِ اولیٰ کے نبوی اسلام کا ایمان افروز منظر نگاہوں کے سامنے جلوہ نما ہو کر یقین و ایمان اور حرکت و عمل میں تحریک پیدا کرتا ہے۔
تکملہ کی اشاعت حضرت علامہ محمد عنایت اللہ خاں المشرقی کے تمام پروگرام کی تکمیل تھا۔ غلبۂ اسلام اور مسلمانوں کی آزادی کے نصب العین کے حصول کا پروگرام جو خریطہ کے اشعار سے شروع ہوا۔ تذکرہ کی اشاعت، اشارات کے اشارے ، خاکسار تحریک کا قیام، حرکت و عمل، تنظیم اصلاح نفس، قول فیصل میں وضاحت، مقالات کی تحریریں، قید و بند کی صعوبتوں،انگریز سے مسلح ٹکرائو سے ہوتا ہوا تقسیم ہندوستان کے ہولناک تماشے سے گزر کر پاکستان کی مضبوطی کی قابل عمل تجاویز پیش کرنا ہوا انسانی مسئلہ اور حدیث القرآن میں تمام دنیا کے سائنس دانوں کو تسخیر کائنات کی راہ پر لگاکر تکملہ کی تخلیق پر تکمیل کو پہنچ گیا۔
دنیا کے بہت سے راہنما جنہوں نے اپنی اپنی قوموں کو غلامی اور خلاقی پستی کے جہنم سے نکالنے کی مقدور بھر کوشش کی مشکلات اور مصائب کے دوران مایوسی اور قنوطیت کا شکار ہوئے ۔ ان کی سوچ اور فکر میں ضعف پیدا ہوا۔ لیکن حیرت انگیز امر ہے کہ علامہ المشرقی کا ذہن اور ارادوں میں کسی بھی لمحے کوئی کمزوری ضعف اور لرزش پیدا نہیں ہو سکی۔ خریطہ کم عمری میں لکھا گیا، تذکرہ انتہائی عروج میں نوجوانی کی عمر اور شاہانہ ماحول میں تحریر ہوا۔ اشارات اور قول فیصل بھرپور جوانی میںتصنیف کی گئیں۔ دینِ قیم ویلور جیل کی تنہائیوں میں لکھا گیا۔1940؁ سے لیکر1947؁تک مصائب کے پہاڑ اور موانعات کے قلزم سیداہ ہوئے۔ انگریز ،ہندو اور مسلمانوں کے پروپیگنڈے کے زہریلے تیروں سے جی بھر کر چھلنی کیا گیا۔ تقسیم کے بعد مسلم لیگ کی طرف سے کی گئی بے پناہ کردار کشی کے ماحول میں مقالہ انسانی مسئلہ لکھا گیا۔ حدیث القرآن کا شاہکارمیانوالی جیل کے عقوبت خانے میں تخلیق ہوا۔اور آخری عمر میں کم ظرف دشمنوں نے جب مقدمہ قتل میں ماخوذ کر کے اسی عظیم انسان پر جسمانی تشدد اور ذہنی اذیت کے لرزہ فگن مظالم توڑ ے جب اس مقدمہ کی فریق حکومت پاکستان تھی۔ جب انگریز اور ہندو اس اپنے خطرناک دشمن کو سزائے موت دینے کے لئے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کر رہے تھے جب پھانسی گھاٹ سامنے تھا اور موت کابے رحم دیوتا محورقص تھا اور آنکھوں کے سامنے موت صاف نظر آرہی تھی۔ ایسے وقت میں دل اچھل اچھل کر حلق میں آجاتا ہے۔ ذہن مختتل اور شعور فنا کی وادیوں میںڈوب رہا ہوتا ہے ہاں ایسے قیامت خیز وقت میں اس عظیم اور پر سکون انسان علامہ محمد عنایت اللہ خاں المشرقی نے جیل کی خوفناکیوں میں تکملہ جیسی بے مثال کتاب تخلیق کی جس میں قرآن حکیم کی صحیح تعلیم اور نبوی اسلام کو دنیا کے سامنے اصلی صورت میںبطورِ اتما م حجت پیش کر کے’’ الیوم اکملت یکم دینکم کا منظر پھر پیدا کردیا۔

اتمام قولِ رب تو ہے تعمیل ہو نہ ہو میں سب سچائیوں کو سر راہ سجا گیا
جائوں گا میں تویاں سے دلِ پُرسکوں کے ساتھ عیش گناہ میں فتنۂ حق میں مچا گیا
اے مہلت ِزمانہ نہ کچھ کر کے دیکھ لے ہونا وہی ہے بس جو میں علناً بتا گیا
صدیوں تلک نہ سمجھ سکو گے جویوں رہے اللہ کی بات جو کچھ مشرقی سمجھا گیا

تکملہ1960؁ میں شائع ہوا خریطہ سے تکملہ تک علمی اور خاکسار تحریک کے قیام سے لے کر1963؁تک عملی جدوجہد میں ایک حیران کن ریط، ایک تحرک انگیز تسلسل اور ایک حوصلہ زا تقدم کارفرما نظر آتا ہے جو کہ کسی بھی دوسرے راہنمائی کے مدعی میں نظر نہیں آتا۔ دین اسلام کے غلبے اور مسلمانوں کی آزادی کے لئے مدت العمر جدوجہد کرنے والا یہ عظیم انسان اپنی زندگی کے تمام طوفانوں سے گزر کر مطمئن نفس کے ساتھ27اگست1963؁کو اپنے اللہ کے حضور پیش ہو گیا۔

ڈاکٹر محمد بشیر اختر۔
18اگست2014؁بوقت 11بجے دوپہر۔

No comments:

Post a Comment

Designed By Blogger Templates