Latest Posts

Media Section

Photo Gallery

Literature

Pamphlets

Tuesday, October 28, 2014

بجواب - علامہ المشرقی ؒ سے علامہ طاہرالقادری تک - ڈاکٹر صبیحہ المشرقی

محترم نصرت جاوید صاحب بصد احترام آپ کا کالم ’’برملا‘‘ روزنامہ ا’’ایکپریس لاہور‘‘ مورخہ ۲۴ اکتوبر ۲۰۱۴ء ’’علامہ مشرقی سےعلامہ طاہر القادری تک ‘‘ پڑھا لیکن اندازہ نہیں ہو سکا کہ تنقید کس پر ہے؟ علامہ المشرقی ؒ پر یامحترم طاہر القادری پر۔۔! اگر ایک سطحی نظرسے بھی دیکھاجائے تو دونوںشخصیات کےSchool of Thought یکسر الگ الگ ہیں تو ایسے وقت میں جبکہ اگست۲۰۱۴ء کے دونوں انقلاب اور آزادی مارچ اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکے ہیں اور اِن غیر منظم انقلابوں اور مارچوں کی صورت میں جو پائیدار ہڑبھونگ معرضِ وجود میں آئی اس کی مثال آئندہ کئی عشروں تک نہیں مل سکے گی۔ آپ کااس انقلاب اور مارچ پر غم و غصہ بجا ہے لیکن اِس غصے کو اگر ان افراد تک محدود رکھا جائے جن سے آپ سمیت کئی کروڑ پاکستانیوں کو گلہ ہےتو ہم خاکسار بھی آپ کے ساتھ اِ س غم اور غصے میں برابر کے شریک ہیں۔ لیکن اگر اِس غصے کو کسی ایسی شخصیت کے ساتھ مماثلت دے کر اپنے غصے کو ٹھنڈا کیا جائے تو یہ ایک غیر واجبی اندازِ تنقید ہے اور صحت مند صحافت کے برعکس ہے۔
علامہ عنایت اللہ خان المشرقی ؒ کی شخصیت صرف پاکستان اور برطانیہ میں ہی تنقید کا نشانہ بنتی آئی ہے اس کے علاوہ کہیں بھی علامہ المشرقی ؒ کی شخصیت کو اِس اندازاور طریقہء تنقید کا سامنا نہیں ہوا اور یہ بیجا تنقید علامہ المشرقیؒ کی شخصیت پر کیوں کی جاتی ہےاس کی اصل وجہ آج دنیا جانتی ہے، علامہ المشرقی ؒ پر اس پہلے بھی تنقید ہوتی آئی ہے لیکن آپ کا انداز تنقید تمام اخلاقی قدروں کو پامال کرگیا ہے اور خاکسارتحریک اور علامہ المشرقی کے پرستاروں کی دل آزاری کاباعث بنا ہے۔ آپ کو علامہ المشرقی سے کیونکر اتنا اختلاف ہے اس کی کوئی اہم وجہ آپ نے سپر د قلم نہیں کی جبکہ آپ نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ آپ کے عزیز نے آپ کو کہا کہ علامہ بہت بلند پائے کی شخصیت تھے ان کی قرآنی تفسیر بڑے ہوکر ضرور پڑھنا اگر آپ اپنے عزیزکا کہا مان کرعلامہ المشرقی کی قرآنی تفسیر ’’تذکرہ‘‘ بڑے ہوکر پڑھ لیتے تو یقیناً آج آپ کو یہ کالم اس تناظر میں لکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
یہ حقیقت عالم آشکار ہے کہ آج کل مدرسوں سے سندیں لیکرہر دوسرا شخص علامہ بن جاتا ہےلیکن اُن علاموں اور علامہ المشرقی ؒ کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔عنایت اللہ خان کو علامہ المشرقی کا خطاب ’’جامعہ الاظہر‘‘ قاہرہ میں موتمرعالم الاسلام کی پہلی کانفرنس میں اُنکو اُنکی علمی قابلیت کے پیشِ نظر ۱۹۲۶ء میں دیا گیا۔ اور واضح رہے کہ علامہ المشرقی کسی مدرسے سے فارغِ التحصیل نہ تھے بلکہ انکلستان کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں سےاعلیٰ ترین رینگلر اسکالر، بیچلر اسکالر اور فاؤنڈیشن اسکالر کے اعزازات لیکرفارغ التحصل ہوئے تھے اور تعلیم مکمل کرکے ۱۹۱۲ء میں واپس ہندوستان لوٹے تو اعلیٰ ترین سرکاری عہدے پر فائز رہے اور اِس دوران انگریز حکومت کی جانب سے سر کے خطاب کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ بعدازاں سرکاری عہدے سے استعفی کے بعد ان کی جدوجہد مسلمانانِ عالم کے لئے تھی اور اُن کا اول و آخرمنتہا اپنی ذات کے لئے ہندوستان سے اقتدار سمیٹنا نہیں تھا وہ ہندوستان کے سیاہ کار لیڈروں کی طرح انگریز حکومت کے کاسہ لیس یا ان کی بگیاں کھینچنے والے نہیں تھے انہوں نے اقوامِ عالم میں اپنے علمی قابلیت کو ثابت کرنے کے بعد خاکسارتحریک کے پلیٹ فارم سے جو بھی جدوجہد کی مسلمانانِ عالم اور دین اسلام کی سر بلندی کے لئے کی ،ان کے نظریہ کے مطابق انگریز نے ۱۸۵۷ء میں مسلمانوں سے ہندوستان کی بادشات چھینی تھی تو واپس بھی وہ مسلمانوں کو کرکے جائے اور یوں دوقومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم ہند، مسلمانوں اور ہندؤں کوتاقیامت ایک دوسرے کے خون کا پیاسہ بنادے گی۔
خاکسارتحریک کے ریکارڈ روم میں آج بھی علامہ المشرقی ؒ کا ۱۴ مئی ۱۹۴۷ء بانکی پور پٹنہ کا خطاب موجود ہے جس میں ۵۰ ہزارافراد کےعظیم الشان جلسہِ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تقسیم ہند کی جو تصویر کشی کی اُس خطاب کا متن کالم نگار محترم جناب حسن نثا ر صاحب نے اپنے یکم جنوری ۱۹۹۷ کے کالم ’’چوراہا‘‘ میں کچھ اِس طرح تحریر کیا تھا۔
’’صرف وہی انقلاب جو عوام کے متحدہ جسمانی زور سے میدانِ جنگ میں پیدا ہو،ہندوستانیوں کو صحیح معنوں میں آزادی دے سکے گا۔ ایسا انقلاب ہی حکومت کے اس نظام کو الٹ پلٹ سکتا ہے۔ جو اس وقت رائج ہے اور جس نے چالیس کروڑ انسانوں کے دل اس وقت مکمل طورپر انگریز سے برگذشتہ کر دیئے ہیں۔ صرف یہی جمہور کی طاقت پیدا ہوانقلاب خودبخود برطانوی راج کے ہر خدوخیال کو مٹا کر اس کی جگہ ہندوستانیوں کا بنایا ہوا ’’ہندوستانی راج‘‘قائم کرنے کا راستہ صاف کر سکتا ہے۔انگریز کا ان لوگوں کو پُر امن طورپر حکومت سپرد کر دینا بد ترین قسم کے برٹش راج کو پھر لانے کے سوا کچھ بھی پیدا نہ کر سکے گا۔ایسا راج،برطانوی راج کی بدترین صورت سے بھی دس گنا زیادہ ظالمانہ، زیادہ بدصورت، زیادہ بھیانک، زیادہ سرمایہ دارانہ اور زیادہ غیر ہندوستانی ہو گا۔یہ حقیقت میں تمام سچائیوں کا الٹ ہوگا اور پھچلے سو سال میں انگریزوں نےجو بھلی یا بری شے ہندوستان کو دی ہے اس کی مسخ شدہ تصویر ہوگا۔یہ فی الحقیقت ایک منظم فتنہ اور ایک مستقل ظلم اور ایک پائیدار ہڑبونگ ہوگی جس سے بڑھ کر ہڑبونگ نہیں ہوسکتی۔یہ ایک ایسے ایٹم بم کی دائمی حکومت اور دہشت کی دائمی بادشاہت ہوگی۔ ہندوستان میں کسی ایک یا زیادہ سیاسی جماعتوں کو حکومت سپرد کر دینا،اس سے زیادہ بدترین شہنشاہیت،زیادہ بدترین سرمایہ داری،زیادہ بدترین ہلاکوخانیت پیدا کر دے گاجو آج تک کسی زمانے کی تاریخ نے پیدا کئے۔ایسا راج دراصل برطانوی راج تو ہوگا مگر برطانوی راج کی خوبیوں سے عاری ہوگا۔یہ راج فی الحقیقت برٹش راج کے بغیر برٹش راج کی علمبرداری میں ہوگا جو زمین پر دوزخ کا نمونہ پیش کرے گا‘‘۔
مندر جہ بالا تقریباً تین سو الفاظ کو ایک بار پھر پڑھیئے۔ایک بار پھر پڑھیئے۔تین بار پڑھ چکنے کے بعد ان تین سو الفاظ پر غور و فکر کیجئے۔اس کے ایک ایک فقرے پر تفکر و تدبر کیجئے اور پھر پوچھیئے کہ یہ کس شخص کی تقریر کا اقتباس ہے؟ یہ تقریر 1947ء کو پٹنہ کے مقام پر کی گئی اور یہ تقریر کرنے والا اپنے عہد کا نابغہ روزگار ترین شخص تھا۔وہ بہترین مسلمان تھا، اس کی ذہانت اور دیانت ہی نہیں شجاعت بھی شک و شبہ سے بالاتر تھی اور اس کا نام تھا۔۔۔
عنایت اﷲ المشرقی ؒ(علامہ محمد عنایت اﷲ خان المشرقی ؒ)
علامہ مشرقی ؒ کی اس تقریر پر کسی تبصرے کی نہ کوئی ضرورت ہے نہ گنجائش۔یہ تجزیہ اب تجزیہ نہیں ،حالات و واقعات کی جیتی جاگتی تصویر ہے جو تیرہ کروڑ عوام کے سامنے ہے بالکہ سچ ہے کہ یہ تیرہ کروڑ ہی کی تصویر ہے۔اب آیئے!حضرت علامہ محمد عنایت اﷲ خان المشرقی ؒ کے چند جملے پھر دہراتے ہیں۔
’’انگریز کا ان لوگوں کو پُر امن طورپر حکومت سپرد کر دینا،بدترین قسم کے برٹش راج کو لانے کے سوا کچھ پیدا نہ کر سکے گا‘‘۔’’ایسا راج، برطانوی راج کی بدترین صورت سے بھی دس گنا زیادہ ظالمانہ، زیادہ بد صورت ،زیادہ بھیانک،زیادہ سرمایہ دارانہ اور زیادہ’’گیر ہندوستانی‘‘ہوگا‘‘۔
فی الحقیقت ایک منظم فتنہ اور ایک مستقل ظلم اور ایک پائیدار ہڑبونگ ہو گی‘‘۔
’’ایسا راج دراصل برطانوی تو ہو گا مگر برطانوی راج کی خوبیوں سے عاری ہوگا‘‘۔ 
قارئین!
اگر ہم برطانوی راج کی جگہ…’’غیر ملکی راج‘‘…’’آئی ایم ایف راج‘‘یا ’’امریکن راج‘‘کی اصطلاح استعمال کریں تو کیسا ہے؟کیونکہ یہ سب’’استعمار ‘‘ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔لیکن بھلا اس’’تکلف‘‘کی بھی کیا ضرورت ہے؟اگر انگریز کا’’پٹواری‘‘آج بھی استحصال کی علامت ہے…اگر انگریز کا’’تھانیدار‘‘آج بھی ظلم کی علامت ہے…اگر انگریز کا پالتو پروردہ جاگیردار آج بھی’’طاقت‘‘اور’’اثر و رسوخ‘‘ کی علامت ہے تو باقی کیا بچتا ہے؟ کچھ کہنے کو…انگریز تو یہاں گنتی کے تھے ،انہوں نے ہمیشہ ہم پر’’ہمارے اپنوں‘‘کے ذریعے ہی راج اور ظلم کیا…اپنے ایجنٹوں کے ذیعے ہی حکومت کی،اب بھی’’ریموٹ‘‘ کے ذریعے’’کنٹرول‘‘اور’’کمانڈ‘‘جاری ہے۔ان ایجنٹوں کی معمولی سی’’اقلیت‘‘آج بھی ’’اکثریت‘‘پر اسی طرح بھاری ہے اور کمال یہ ہوا کہ ’’استعمار‘‘کو ان کی’’ذمہ داریوں‘‘سے بھی نجات مل گئی۔اب انہیں کہیں ریلوے کا جال بچھانے ،سڑکیں،سرنگیں بنانے اور آب پاشی کا کوئی نظام وضع کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ (’’چوراہا‘‘ مورخہ ۱۱ جنوری ۱۹۹۷ء)
بقول آپ کے واجب ِ احترام والد کی سند کے اِ س خبطی نے تقسیم ہند کی جو تصویر کشی کی کیا وہ درست ثابت نہیں ہوئی؟ کیا تقسیم ہند کے المناک حادثے کے دوران ۱۰ لاکھ انسانوں کا قتل عام ِ نہیں ہوا؟ ۷۰ ہزار ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عصمت دریاں نہیں ہوئی ؟ کیادو قوموں کے درمیان انگریز کی بوئی ہوئی ڈیڑھ سو سالہ نفرت کی بنیاد پر قائم دوقومی نظریہ کی موجودگی میں ۵ کروڑ مسلمانوں کو ہندو کی دائمی غلامی میں دیکرنہیں آئے؟ جو آج ہندوستان میں تعداد میں بڑھ کر ۲۳ کروڑ ہوچکے ہیں اورنریندر مودی جیسا ظالم حکمران آئے دن اُن کا استحصال کررہا ؟ اُن کی نسل کشی کررہا؟۔ کون ہے ذمہ دار اب تک کے اس انسانی استحصال کا ؟ کیا۵۴۰ Princely State کو صرف ۴ صوبوں کے عیوض ہندو کے حوالے نہیں کیا گیا؟ دوقومی نظریہ کے تحت ایسی غیر انسانی غیر فطری تقسیم جو کہ جولائی ۱۹۴۷ کے انگریز حکومت کے انڈیپنڈنٹ ایکٹ کے تحت دو ڈومینین اسٹیٹ بناکر کی گئی۔ جس نے مسلمانوں کو ہندوستان میں تین حصوں میں بانٹ کر رکھ دیا ایسی تقسیم کو مان کرہندوستان کی ۱۱۴۵ برس کی بادشاہت سے دستبردار ہوکر یہ ملک لیا جس میں آکر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے سائے تلے تاج برطانیہ کے ساتھ وفاداری کے حلف اٹھائے گئے کہ اس ملک کو اسلام کا قلعہ بنائیں گے لیکن اس اسلام کے قلعے کی فوج کے پہلے دو کمانڈر انچیف General Sir Frank Messervy اور General Sir Douglas Gracey دونوں انگریز دونوں عیسائی نہیں تھے؟ (نوٹ :یہ وہی جنرل گریسی تھا جس نے ۱۹۴۸ء میں بھارت کی کشمیرپر فوج کشی کو روکنے کے لئے بانی پاکستان کے آڈرز کو ماننے سے انکارر کردیا تھا)۔ پاک فضائیہ کے پہلے چار کمانڈر انچیف چاروں انگریز نہیں تھے؟ اس اسلام کے قلعے کا پہلا وزیر قانون Jogendra Nath Mandal ایک ہندو نہیں تھا؟ اسلامک ری پبلک آف پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ Muhammad Zafarullah Khan ایک قادیانی نہیں تھا؟ پاکستان کے چار صوبوں کے تین گورنرز Sir Frederick Bourne گورنر مشرقی بنگال، Sir Francis Mudie گورنر مغربی پنجاب، Sir George Cunningham گورنر صوبہ سرحد انگریز نہیں تھے؟ اُن حالات میں پاکستان کن ہاتھوں میں رہا اور کیونکر اسلام کا قلعہ بن سکتا؟
اس بات سے قطع نظر ایک سال بعد بانی پاکستان کی رحلت کے بعد یہ ملک جن سیاہ لیڈروں کے ہتھے چڑھا انہوں نے ملک کو انگریز کی غلامی سے نکال کر امریکہ بہادر کی غلامی میں دے دیا؟ اور یہ کام اُن سیاہ کار لیڈروں نے کیا جن کے بارے میں بانیٔ پاکستان نے بستر مرگ پر کہا کہ میری جیب کے سارے سکے کھوٹے تھے۔ بحیثیت قوم ہمارا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ ہمیں یاد ہی نہیں رہا کہ 1947 میں کیا قیامت صغرٰی بپا ہوئی برصغیر میں ایک کروڑ انسان متاثر ہوئے دس لاکھ مسلمانوں کا قتل ِ عام ہوا ہزاروں عصمتیں لٹ گئیں بچے سنگینیوں پر اچھالے گئے اربوں روپے کی ملکیتیں تباہ ہویں مہاجرین کا لہو لہان سیلاب رواں ہوا، ا مسلمان ریاستیں اپنا وجود کھو بیٹھیں جو مسلمان کبھی ہندوستان کے حاکم تھے ان کی برہنہ لاشیں اور لٹی عصمتیں عبرت کدہ بن گئیں مسلمان قوم کی اجتماعی قوت تقسیم ہو گئی کروڑوں مسلمان ہندو کی ابدی غلامی میں چلے گئے جو باقی آدھے بچ گئے وہ انگریز کی غلامی سے نکل کر امریکہ بہادر کی دائمی غلامی میں دھکیل دئیے گئے اور پاکستان ایک کمزور ڈومینین اسٹیٹ کی شکل میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا،جس نے اسلام کا قلعہ بنناتھا نہ بن سکا۔کیا اس خبطی نے جو کہا اور بعدازاں جو کچھ ہوا کیا وہ حقائق پر مبنی نہیں تھا؟ جب چل نکلی ہے تو علامہ المشرقیؒ کی۱۹۵۶ ء منٹوپارک لاہور کے خطاب کا ذکر کرتی چلوں جس میں ایک لاکھ کے مجموعہ سے خطاب کرتے ہوئے عظیم المرتبت انسان نے جو پیشنگوئی کی اُس کے عین مطابق ۱۹۷۱ء میں یہ ملک دولخت نہیں ہوا؟ اس تقریر کا متن آپ ہی کے ساتھی دوست حسن نثار صاحب کے الفاظ کو ان ہی کے کالم سے وابستہ کرکے لکھ رہی ہوں۔
’’مسلمانو! میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ ایسا دور آنے والا ہے جوکہ غالباً ۷۱-۱۹۷۰ء کا دور ہوگا۔ اس دور میں میری نگاہیں دیکھ رہی ہیں کہ ہر طرف ایک یورش کا طوفان اٹھ رہا ہوگا۔ ملک کے اندورنی حالات بڑے خراب ہوں گے۔ خو ن خرابہ کا ہر وقت خدشہ ہوگا۔ نسلی اور صوبائی تعصب کو ہر جگہ ہوا دی جارہی ہوگی۔ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے ہوں گے۔ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے پروگرام بن رہے ہوں گے، میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اگر ملک کی قیادت مضبوط ہاتھوں میں نہ ہوئی تو جا ن لو اس ملک کا بچنا محال ہوسکتا ہے۔ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے کٹ جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ اندورنی خلفشار کی وجہ سے کہیں انڈیا فائدہ اٹھاکر ملک ہڑپ نہ کر لے ہوسکتا ہے کہ غلط قسم کے لوگ برسر اقتدار آکر پاکستان کو ہندو کی غلامی میں نہ دے دیویں۔ میں تمہیں ۷۱-۱۹۷۰ء کے لئے خبردار کرتا ہوں کہ اْس وقت کے لئے ابھی سے تیاری شروع کر دو ۔ (روزنامہ جنگ لاہور ’’چوراہا – صرف اناؤنسمنٹ باقی ہے‘‘ مورخہ ۳۰ مارچ ۲۰۱۲ء)
یہ وہ الفاظ ہیں جو المشرقیؒ نے واشگاف انداز میں کہے لیکن قوم نے سنی ان سنی کردی آپ جیسے اُس وقت کے کالم نیویسوں نے ان کو دیوانے کی بڑ سے نوازا لیکن کیا ہوا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے کیا بلی کبوترکو ہڑپنے کی فطرت سے باز آجائے گی ۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی علامہ محترم کے خاکساروں نے خون سے آزادی کی بنیاد ۱۹ مارچ ۱۹۴۰ء کے اسی واقعے سے رکھی تھی جس میں لاہور کی گلیوںمیں انگریز نے خاکساروں کے سینے چھنی کئے اور خاکساروں کاخون آزادی کی شمع بنکر روشن ہوا۔ اسی خون شہید ان کی بنیاد پر ۲۳ مارچ۱۹۴۰ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قرارداد پاکستان پاس ہوئی اس واقعے کو آپ نے بڑی عمدگی کے ساتھ مسخ کرکے عبداللہ حسین کے قلم سے منسوب کرکے لکھ دیا۔
علامہ المشرقیؒ اور خاکسارتحریک کی جدوجہد کو ’’ شورش کاشمیری صاحب میں بڑی عمدگی سے قلم بند کیا ہےاُن کی اُس تحریر کو بطور سند یہاں پیش کررہی ہوں۔ یہ یقینا اور ارداتاًاس لئے کررہی ہوں کہ آپ کو آپ ہی کے مستنداہلِ قلم کی زبانی تاریخی حقائق سے آگاہ کروں۔
’’علامہ صاحب کے نابغہ و عبقری ہونے میں کسے شک ہے۔ وہ جس تحریک کو لے کر اٹھے اور جس انداز میں انہوں نے دینی تحریک کا ایوان رفیع تعمیر کیا ہم اس کے لئے یورپی زبان کا روایتی استدلال اور مغرب کا مورخانہ لہجہ استعمال کریں اور الفاظ کی جادوگری سے کام نہ لیں تو بھی علامہ کی شخصیت بر عظیم مسلمانوں کی عصری تحریکوں میں اتنی نمایاں ہوگی کہ ان کے قد و قامت پر بلاشبہ ایک تاریخی عظمت کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ خاکسار تحریک برعظیم کے مسلمانوں کے ملی شعور کی انگڑائی کا ایک عسکری زاویہ تھا۔ایک چیز جو آج تک ہماری سمجھ سے بالا ہے کہ وہ تمام لوگ جو ۱۸۵۷ء سے لے کر ۱۹۴۵ء تک انگریزی حکومت کے ذلہ خوار تھے اور نسلاً بعد نسل انگریز حکمرانوں کے اشارئہ ابرو پر رقص کرتے رہے وہ تو انگریز کو جاتا دیکھ کر قائداعظم کی اس سیادت سے بندھ کر ہمیشہ کے لئے حریت ماب ہو گئے اور جنہوں نے میدان حریت کے جگرداروں کی حیثیت میں اپنی عمریں ابتلائو آزمائش کے معرکوں میں گنوا دیں وہ تاریخ ملی سے اس طرح نکال دیئے گئے گویا حشو و زوائد ہیں یا فی الواقعہ غدار ہیں۔
اناللہ وانا الیہ راجعونo
تاریخ کا یہ مذاق سب کے سامنے ہے اور ہم پیش گوئی کے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اس مذاق کو طول نہیں دیا جا سکتا‘ یہ سانچہ ٹوٹ کر رہے گا۔ تاریخ ایک عمل ہے‘ ایک جہد ہے‘ ایک رفتار ہے‘ محض فرد نہیں۔ بہرحال یہ ایک دوسری بحث ہے اور اس سے متعلق کئی ابواب قائم کئے جا سکتے ہیں۔ زیرنظر سوال یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے انگلش عہد میں جہاد حریت کے جن چراغوں کو روشن کیا اور مختلف مراحلوں میں برطانوی استعمار کے حصار میں شگاف کرنے کے لئے جو معرکے برپا کئے ان کا تذکرہ اس لئے موقوف کر دیا جائے کہ وہ مسلم لیگ میں شامل نہیں ہوتے اور مسلم لیگ کی چند سال کی جدوجہد میں انہوں نے حصہ لیا یا انہیں پاکستان کا اقتدار پسند نہیں کرتا اور ان کے خلاف وہ تمام لوگ ہیں جو پاکستان کی آزادی پر قابض ہو گئے۔ لیکن پاکستان سے پہلے انگریزوں کے دسترخوان نعمت کی چچوڑی ہوئی ہڈیاں چبانے ہی کو فخر و ناز کی پونجی سمجھتے تھے اور ان کے لئے من و سلویٰ کوئی تاریخ اس لئے نہیں روکی جا سکتی کہ اس کے سامنے کا راستہ ہموار نہیں یا جن لوگوں کے ہاتھ میں قلم ہے وہ سیاست کے تھانے میں بیٹھ کر اپنی منشا کے مطابق ضمنیاں لکھ رہے ہیں۔ہم نے اپنے قلم سیاسی مصلحتوں سے آلودہ کئے اور اکثر حقیقتوں پر غبار ڈالا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ مرتب نہیں ہو رہی۔ براعظم کے مسلمانوں کی تاریخ مارچ ۱۹۴۶ء سے لے کر اگست ۱۹۴۷ء تک نہیں بلکہ ۱۸۵۷ء سے لے کر ۱۹۴۷ء کی صبح آزادی تک کی تاریخ ہے اور اس کی جدوجہد کے مختلف دور ہیں۔
آزادی یکایک طلوع نہیں ہوئی اور نہ شمع استبداد پھونک مارنے سے بجھا کرتی ہے۔ بقول اقبال
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
ہمارے لئے یہ چیز شرمناک ہے کہ ہم نے پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد قادیانی امت کے برطانوی وجود کو اپنے دامن میں پناہ دی اور ان خاندانوں کو اعزاز بخشا جو ۱۸۵۷ء میں انگریز سے وفاداری کے صلہ میں ملت اسلامیہ سے غداری کے بعد معزز و متمول اور ممتاز و منفرد ہوئے تھے یا پھر ان کاسہ لیس افسروں کو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا جو انگریزوں کے لئے ہر ممکن غداری کے لئے تیار رہتے تھے۔ جنہوں نے انگریزی حکومت کی خوشنودی کے لئے اپنے ضمیر اور اپنے ایمان کو بالا خانہ کی مخلوق کی مانند فروخت کیا جن کے ضمیر و ایمان بیسوا کی عفت و عصمت تھے اور معتوب وہی لوگ رہے جو انگریزی استعمار سے اپنی سانس میں پنجہ آزما تھے۔
سرحد کے خدائی خدمت گار و سرخ پوش‘ پنجاب کے احرار‘ مشرقی کے خاکسار‘ سندھ میں پیر پگاڑو اور ان کے حر محض اس لئے نظر انداز نہیں کئے جا سکتے کہ وہ مسلم لیگ میں شامل نہیں تھے یا انہوں نے قائد اعظم ?کی مطابقت نہیں کی۔ ان کی اس ’’فرو گذاشت‘‘ کو نمایاں کر کے بھی اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ برطانوی استعمار کے خلاف برعظیم کی تاریخ میں ان عناصر نے اس جواں مردی سے مختلف معرکہ ہائے رستا خیز میں حصہ لیا کہ ہم خود تو آنکھیں بند کر کے ان سے انکار کر سکتے ہیں‘ لیکن تاریخ کی عالمی نگاہیں ان پر ٹکی رہیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ خاکسار تحریک کو حکومتی مسلمانوں نے اپنی سیاسی کربلا میں شہید کر ڈالا۔
(ہفتہ روزہ ’’چٹان لاہور‘‘ یکم ستمبر ۱۹۷۵ء)
ان تمام الفاظوں کے گورکھ دھندے کے بعد بھی اگر کوئی شک و شبہ رہتا ہے تو پھربقول شورش کاشمیری تاریخ کی عالمی نگاہیں آج بھی ان پر ٹکی ہیں جس کی مثال حال ہی میں بھارت میں Professor Amalendu De نے دو حصوں پرایک ہزار صفحات پر محیط خاکسار تحریک کی تاریخ The History of Khaksar Movement in India Vol. I & II مرتب کی ہے اُس کو ملاحظہ کرلیں آپ کو اندازہ ہوگا کہ آج بھی دنیا اِس خبطی کو کس نظر سے دیکھتی ہے۔
دنیا بھر کے بیس ہزار سائنسدانوں، پروفیسروں، تاریخ دانوں، ڈاکٹروں اور انجینئروں کو ۱۹۵۲ میں Human Problem جیسا معرکتہ آراء مقالہ لکھ کر ازروئے قرآن انسان ذات کو ایک مذہب پر یکجا کرکے امت واحدہ کے تصور میں ڈھال کر تسخیر کائنات اور لقائے ِ رب کے الہامی پروگرام پرعمل درآمد کرنے کے لئے دعوتِ عمل دینا کسی خبطی کے خبط سے منسوب نہیں کیا جاسکتا ایسے عظیم مفکرِ انسانیت کوایک ان پڑھ شخص اپنے بیٹے کو اُس شخص کے بارے میں خبطی ہونے کی سند دیتا ہے اور وہ بیٹا بڑا ہوکر بنا تصدیق کئے بنا تاریخ کا مطالعہ کئے اپنا قلم اٹھاتا ہے اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ طریقہ سے اِسی عظیم شخصیت کے بارے میں انتہائی نامعقول لفاظی کرتا ہے صد افسوس۔۔۔!!!۔رہی درہ زن اور سزاؤں کی بات تو خاکسار تحریک ایک نیم عسکری جماعت ہے اُس کا اپنا ایک طریقہ ہے جس کو قبول کرکے ہی افراد اس میں شامل ہوتے ہیں اور درہ زنی کوئی متشدد انہ عمل نہیں بلکہ غلطی کرنے کی صورت میں ایک نیم عسکری جماعت میں اصلاح پیدا کرنے کا ایک نظام ہے جس کو آپ کے عزیز نے بھی بخوشی و رضا قبول کیا۔ انتہائی معذرت کے ساتھ آخر میں منٹو کے قلم سے جو بات نکلی اور آپ نے سیاہ حاشیہ کے طور پر لکھی وہ بھی حقائق کو مسخ کرنے کے لئے تابوت میں آخری کیل کے طورپر استعمال کی لیکن اسی کشمیر کے لئے جہاد بالسیف خاکساروں نے کیا اور کشمیر کے محاذ پر علامہ محترم زخمی بھی ہوئے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور آن ریکارڈ ہے کہ ۱۹۵۲ میں جیکب آباد سندھ کے مقام پر علامہ المشرقی (خبطی) نے دریاؤں پر بند باندھنے کی بھارتی سازش کی بیخ کنی کی تھی اور اس جرم کی پاداش میں ان کو ۱۸ ماہ جیل میں بنا کیس چلائے نہرو کو خوش کرنے کی خاطر نظر بند کردیا گیا اور مسلم لیگی رہنما خان بہادرمحمد ایوب کھوڑوصاحب نےاُن دنوں ایک اخباری بیان دیا کہ ’’ دریا تو بادشاہ ہے ان کا رخ کوئی موڑ سکتا ہے‘‘ یہ فرق تھامسلم لیگی قیادت اور خاکسارتحریک کی ویژنری لیڈر شپ کا لیکن کیا ہوت کہ جب چڑیا چگ گئی کھیت۔۔۔۔! آج بھارت نے دریاؤں کے رخ موڑ لئے ہیں جب چاہتا ہے ڈبودیتا ہے جب چاہتا ہے خشک سالی کی موت ماردیتا ہے ۲۰۱۰ء اور اس سال پنجاب کا حالیہ سیلاب انہی بھارتی سازشوں کا پیش خیمہ ہے جس کے بیخ کنی کے لئے پاکستان کی مین اسٹریم میڈیا نہ تو کوئی موثر آواز بلند نہ کوئی احتجاجی تحریک چلائی !!!
آپ نے اپنے اُس کالم میں علامہ المشرقی ؒ جیسے دور رس نگاہ رکھنے والے عالم با عمل رہنما کی نسبت ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے جنکے قولِ و فعل کا تضاد عالم آشکار ہے محترم قلم اور الیکٹرانک میڈیا آپ کے پاس ہے آپ کا اولین فرض یہ ہے کہ آپ ۶۸ سالوں کی سیاسی بدقماشیں منظر ِ عام پر لائیں ان سیاہ کار اور ریاکار لیڈروں کی بیخ کنی کریں اورآپکی زبان تلوار کی تیکھی دھار کی طرح چلے نہ کہ تاریخ کو ملیا میٹ کرے اور قوم کے سچے اور مخلص رہنماؤں کی کردار کشی کریں۔۱۹۴۷ سے لیکر آج تک خاکسارتحریک نے کبھی بھی پاکستان مخالفت میں کو قدم نہیں اٹھایا اور ایک محب وطن جماعت کے طور پر اپنی خدمات اور کردار ادا کرتی آئی ہے۔ جیساکہ آپ نے ۱۹۶۵ء کی جنگ کے حوالے سے خاکساروں کا ذکر آپ نے بڑی تصحیک آمیز انداز میں کیا۔دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ وطن عزیز کو دشمنوں کے شر اور نادان دستوں سے پناہ میں رکھے اور تاقیامت پاکستان قائم و دائم رہے آمین۔ آج بھی خاکسار تحریک اپنے عزم اور ارادوں میں اپنے عظیم لیڈر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے دریغ نہیں کرے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

1 comment:

  1. نصرت جاوید جیسے استعماری ٹٹو کی یہ جرات ناقابل برداشت ہے جو انہوں نے علامہ صاحب جیسے نابغہ کے بارے میں کی،یہ ان پڑھ اور جاہل قسم کے منشی ہیں جو پیسے لے کراپنے الفاظ کا سودا کرتے ہیں،ان کی حیثیت اس دکاندارسے زیادہ نہیں جو گلی یا محلے میں پیسے لے کراپنا مال بیچتا ہے،میرے خیال میں ایسے ٹٹو کی بات کا جواب دینا بھی محترمہ ڈاکٹر صاحبہ کے شایاشان نہیں،میراخاکسارتحریک سے کوئی تعلق نہیں لیکن قرآن کا طالب علم ہونے کے ناطے اس نابغہ روزگار شخص کی ذات سے واقفیت ہے،ہند کے بےقدرے لوگ اگر اس کی قدرجان لیتے تو آج ایک شکست خوردہ مملکت میں نہ رہ رہے ہوتے

    ReplyDelete

Designed By Blogger Templates