Latest Posts

Media Section

Photo Gallery

Literature

Pamphlets

Sunday, October 5, 2014

نیا سیاسی منظر نامہ - خاکسار فرخ اسد

آتش نمرود سے مخلوق پریشان ہے اب بھی
سماج په فرعونوں کا راج ہے اب بھی
ذرا موسی کو بلاؤ،کوئی ابراهیم کو پکارے
مقصود کسی کو پھر کسی کا امتحان هے اب بھی
زرداری اور سراج الحق کی ملاقات مجھے لگ رہا ہے کہ مستقبل میں بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہو گی۔ دونوں نظریاتی جماعتیں ہیں لیکن دونوں عوام الناس میں غیر مقبول ہو چکی تھیں۔  لیکن قادری اور عمران کے دھرنے ان کیلئے آب حیات کا کام کر گئے۔  دونوں ان دھرنوں کی وجہ سے خاصی مقبول ہوگئیں اور عوام پھر ان کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں اور زرداری کی یہ دوسری ملاقات جماعت اسلامی کے امیر سے آنے والے دنوں میں خیبر پختونخواہ میں نئے سیاسی سیٹ اپ کا عندیہ ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ آئندہ خیبر پختونخواہ میں بھی عمران حکومت بنا نہیں پائے گا۔ اے این پی پہلے ہی پیپلز پارٹی کی حلیف جماعت ہے۔اور اگر زرداری نے اے این پی کو اور جماعت اسلامی کو ایک میز پر اکٹھا کر دیا تو پھر عمران جتنا مرضی زور لگا لے خیبر پختونخواہ میں اپنی حکومت نہیں بنا پائے گا۔ مولانا فضل الرحمٰں وقت کا بندہ ہے اور عمران کا زبردست مخالف وہ اس اتحاد میں شامل ہو سکتا ہے۔ رہی ن لیگ تو وہ بھی سیاسی جوڑ توڑ کرے گی۔ اور کچھ نا کچھ حصہ وہ بھی حاصل کرے گی۔
رہ گئی تحریک انصاٖف تو تحریک انصاف اسی صورت میں دوبارہ حکومت بنا سکتی ہے جب وہ وہاں پوری طرح عوام کو وہ کچھ کرکے دکھائے جن کے الیکشن میں دعوے اور وعدے کئے تھے۔ لیکن وہ اس کا 40 فیصد بھی نہیں کرپائی جس کے اس نے وعدے کئے تھے۔
الٹا ان دھرنوں نے تحریک کو اور بھی نقصان پہنچایا ہے کیونکہ پشاور حکو مت کا زیادہ زور دھرنوں پر ہے نہ کہ اپنی کارکردگی پر وہ دھیان دے پارہے ہیں۔ اگر تحریک انصاف ابھی پشاور سے مستعفی ہو جاتی تو شا ید کچھ نہ کچھ اپنا آپ بچا پاتی۔ لیکن تحریک انصاٖف نے یہ موقع بھی کھو دیا ہے۔
آنے والے الیکشن میں تحریک انصاف کے مخالف اپنی پوری تیاری کرچکے ہیں اور وہ اس کو انتہائی ٹف ٹا ئم دینے والے ہیں۔ عمران کو بھی پو ری طرح عیاں ہو چکا ہے کہ وہ ان دھرنوں سے کتنا نقصان کر بیٹھا ہے۔ اس کو پوری طرح ادراک ہو چکا ہے کہ اس نظام میں رہتے ہوئے اس کو بھی جو ڑ توڑ کرنا پڑے گا۔ اس لئے اس نے شیخ رشید اور قریشی کو یہ ٹاسک دے دیا ہوا ہے۔ اور یہ دونوں کو شش کر رہے ہیں کہ عمران اور قادری کا ملغوبہ آئندہ الیکشن میں دیکھنے کو ملے۔ چو ہدری برادران ان کی پشت پر ہوں گے۔  قریشی کوشش کررہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے لوگوں کو توڑے لیکن بلاول نے معافی مانگ کر اس کی کو ششوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
قارئیں جمہوریت ایک ایسا جال ہے جس میں ساری پارٹیاں پوری طرح الجھی ہوئی ہوتی ہیں اور ان کو اس جال سے باہر آنے کیلئے دوسری پارٹیوں کا ہاتھ تھامنا ہی پڑتا ہے۔ اگر ایک پارتی چاھے بھی تو اپنے بل بوتے پر باہر نہیں آسکتی۔ بلکہ وہ اس جال میں اور بھی الجھتی چلی جاتی ہے اورعمران اور تحریک انصآف کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔
عمران کے مخالف جوڑ توڑ اور گلی کی گندی سیاست میں اور جمہوریت کے جال میں الجھانا چاہتے تھے۔ اور وہ اس میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ عمران اب گردن تک بلکہ پو ری طرح الجھ چکا ہے۔
جذبات ایک طرف اور حقائق دوسری طرف ہیں۔ عمران کا نعرہ اچھا ہے لیکن اس نعرے کو حقیقت کا روپ دھارنے کے لئے دعوؤں کے آسمان سے آ خر کار نیچے اترنا پڑے گا۔ اور جب عمران نیچے اترے گا تو وہ دیکھےگا کہ وہ کیا کچھ کھوچکا ہے۔
آنے والے دن حائق کی دنیا میں آنے والے دن ہوں گے اورعمران کے کیلئے انتہائی مشکل ہیں کیونکہ یہ سرمایہ دار ابن الوقت ہو تے ہیں چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران دوسروں کی کتنی وکٹیں گرا پاتاہے اور اپنی کتنی وکٹیں بچا پائے گا۔
زرداری پختونخواہ کو تو محفوظ کرنے کے چکروں میں ہیں اور لگتا ہے عمران کی حلیف جماعت اسلامی کو اس سے توڑنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ جس طرح سراج الحق صاحب زرداری کی تعریفیں کر رہے تھے وہ یہی کہانی بتا رہے تھے۔
سندھ پہلے ہی پیپلز ارٹی کے ہاتھ میں ہے ۔ وہاں عمران جلسہ تو کرپائے لیکن کیا وہ الیکشن میں ایم کیو ایم کو شکست بھی دے پائے گا۔ یہ بہت بڑا سوال ہے۔
پنجاب میں عمران سیٹیں لے جا سکتا ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ حکومت بنا پائے گا۔ یہ آنے والے دنوں میں عمران کی کا رکردی اور الیکشن کمپیں پر منحصر ہو گا۔
لیکن مسلم لیگ (ن) اتنی جلدی سے پنجاب کو ہاتھ سے جانے نہیں دے گی۔ حکومت ان کے پاس ہے وہ بہتر کارکردگی سے عوام کے دل جیت سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

Designed By Blogger Templates