Latest Posts

Media Section

Photo Gallery

Literature

Pamphlets

Thursday, October 16, 2014

مردہ قوم کو زندہ کرنے کا نسخہ اجتماعیت اور نظم و ضبط میں پنہاں ہے - ضیغم المشرقی

علامہ عنایت اللہ خان المشرقی ؒ کا کہنا ہے کہ قومیں جب موت و زوال کے چکر میں آجاتی ہیں تو کسی کو نہیں سوجتا کی خرابی کہاں پر ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ کہ اگر اس کائنات فطرت میں ہر جسم کا زوال اس لئے ہے کہ اس جسم کےمختلف حصوں نے اپنا اپنا عمل چھوڑ دیا ہے تو قوم کے جسم کا زوال بھی لازماً اسی وجہ سے ہے۔
یہاں یہ امر ملحوظ رکھنا ہوگا کہ کہ ایک قوم کس وقت قوم کہلانے کی مستحق ہوتی ہے اور کس وقت کثرتِ افراد کے باوجود وہ قوم قوم نہیں ہوتی۔ گویا محض افراد کی موجودگی قوم ہونے کی دلیل نہیں اور یہی وہ بنیادی بات ہے جس پر ہمارے کسی دانشور نے کبھی بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی لیکن علامہ المشرقیؒ کے نزدیک قوم کا تصور افراد کی اندر عدم مرکزیت اور عدم تنظیم کی حالت میں نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک عدم مرکزیت کافقدان ہی تمام تر معاشرتی بگاڑ اور سماجی برائیوں کا اصل باعث ہوتا ہے۔ جب افرادایک نظام کی لڑی میں پروئے ہوتے ہیں اور ہربات اجتماعی نقطہؐ نظر سے سوچتے اورکرتے ہیں تو ایسے منظم اور ہم آہنگ افراد کی ہیئت اجتماعیہ قوم کہلاتی ہے۔ غیرمنظم اور منتشر افراد کی سوچ اپنی اپنی غرض اور اپنی اپنی ذات تک محدود ہوتی ہے۔ایسے افراد کا ہجوم قوم نہیں ہوتا۔ ان کی ذاتی اغراض اور انفرادی سوچ ہی سے نفسی نفسی اور قیامت کا سماں پیدا ہوتا ہے جس میں بیٹے کو باپ اور بھائی کو بھائی کاپاس و لحاظ نہین رہتا۔ خود غرضی اور مفاد پرستی کا یہ ماحول ہی وسیع بگاڑ کا اصل سبب ہوتا ہے۔
اوریہ بات اصولی طورپر درست ہے کہ ایسے خود غرض اور بکھرے ہوئے افراد کی اصلاح کے لئےکسی شرعی یا غیر شرعی قانون کے نفاذ اور کسی انتخابی ہنگامہ آرائی کی نہیں بلکہ انہیں مناسب خطوط پر منظم کرنے اور تربیت دینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ ایک قوم بن سکیں اور قومی نقطہ نظر سے سوچنے کے قابل ہوسکیں۔
علامہ المشرقیؒ نے اس مقصد کے پیش نہاد ابتدائی جماعت بندی کا سلسلہ جاری کیا۔ایک نظام کی داغ بیل ڈالی اور اسے محلے کی سظح سے لیکر شہری، ضلعی اور ملکی سطح پر وسعت دیدی۔ علامہ محترم نے اس تنظیم و نظام میں شامل ہونے والے افراد کو چندہ لیکررکنیت دینے کے بجائے انہیں روزمرہ کا کام دیا۔ حرکت کو جاری رکھنے کے لئے ایک محلہ وار سطح پر پروگرام دیا ظاہر ہے کہ جو فردایک آواز اور ایک حکم پر کچھ نہ کچھ حرکت شروع کردے وہ کچھ عرصہ بعد اس جماعت کاہی ہوکر رہ جاتا ہے افراد کے اندر یہ خوبی پیدا کرنا وہ بنیادی کام ہے جو نصیحت،وعظ اور تلقین یا کسی اور طرح سے پیدا نہیں ہوسکتی۔ اسلئے اصلاح احوال کہ مروجہ گول مول اور بے نتیجہ طریقوں کو عرصہ دراز تک دیکھنے کے بعد یہ تسلیم کرلیناچاہئےکہ قوم اور قومی یکجہتی اتحاد و عمل کے بغیر ناممکن ہے اتحاد و عمل ایک تنظیم کی وساطت سے ہی بنائے جاسکتے ہیں۔ جب جاکر کسی بہتر نتیجے کی توقع ہوسکتی ہے۔
آپ حضرات یقیناً اتفاق کریں گے کہ پورا عالمِ اسلام اور پاکستان میں ایک بڑی خرابی اجتماعیت اور نظم و ضبط کا فقدان ہے۔ جس قوم کے افراد میں اجتماعیت اور نظم و ضبط نہیں وہ سرے سے قوم ہی نہیں۔ وہ محض بے ہنگم افراد کی بھیڑ ہوتی ہے جس کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ عدم رابطہ کی وجہ سے اعتماد باہمی کی فضا پیدا نہیں ہوتی۔ نظم و ضبط اور اجتماعیت تربیت اوراطاعت سے پیدا ہوتے ہیں جس طرح ملٹری اکیڈیمی میں لباس درست طور پر پہنے، تسمےٹھیک طرح کسے ہوں آستینیں ٹھیک طور پر چڑھائے، ٹوپی ٹھیک طور پہنےاور قدم ایکساتھ اٹھانے سے اطاعت کا جذبہ پیدا ہوجاتاہے۔ اور جس طرح اسلام نے بھی ایک ہی طرح ہاتھ منہ دھونے ، ایک ہی طرح صف بندی کرنےایک ہی وقت پر ایک امام کے پیچھے ایک ہی حرکت کرنے سے افراد متعلقہ میں اطاعت اور نظم ضبط پیدا کرکے حیران کُن نتائج پیدا کردئیے تھے۔اس تخیل کے تحتالمشرقیؒ نے بھی ایک مخصوص لائحہ عمل رائج کرکے ملت کے ایک عنصر کے اندر اجتماعیتاور نظم ضبط اور اطاعت کا قابلِ تعریف اخلاق پیدا کردیا تھا۔ لیکن تربیت اور اخلاق ناول نویسی ، ڈرامے بازی اور قانون سازی سے ممکن نہیں تفسیریں، تقریریں اور شعروںسے بلکل ممکن نہیں اور یہ تجربہ شدہ باتہے کہ المشرقیؒ نے صرف چند سال میں قوم کےاندر نظم و ضبط اور اجتماعیت کا جو نمونہ اور اطاعت کا بلند ترین اخلاق پیدا کردیاتھااس کا پچاسواں حصہ بھی کوئی بڑی سےبڑی پرہیز گار اور سیاست باز پارٹی گذشتہ ۶۸سالوں میں بھی پیدا نہ کرسکی۔
آج ملک اور قوم کی اصلاح وتعمیر کے لئے اس کیریکٹر کا تصور پایا جاتا ہے کہ سچ بولاجائے ، ملاوٹ نہ کی جائے جھوٹی شہادت نہ دی جائے چوری چکاری اور غنڈہ گردی سےاجتناب کیا جائے لیکن کریکٹر نظم و ضبط اور حرکت کے کس فارمولے پر عمل کرنے اورمناسب تربیت کے بدوں پیدا نہیں ہوسکتا۔
اس زمین کے اور کسی قوم کے بگڑے ہوئےمعاشرے کے سدھار کے متعلق جس بھی مصلح نے سوچا اس نے سب سے پہلے انسانوں کی درستگی پر توجہ دی ۔ انسانوں کے اجتماعی کریکٹر کی تشکیل پر کام کیا ۔ انسانوں کی خود سریاور خود رائی کو ختم کر کے انہیں اطاعت سکھائی جس لیڈر نے زمین کے کسی خطے پر قیام حکومت کا منصوبہ بنایا اُس نے سب سےپہلے عوام میں اپنے ڈھب کو بنایا ، اپنی بات سننے اور ماننے کے لئے تیار کیا ۔ انکی سوچ کا رُخ انفرادیت سے ہٹا کر اجتماعیت کی طرف موڑ دیا۔ عوام کو ان کے حقوق وفرائض سے آگاہ کیا ۔ انہیں معاشرتی آداب سکھائے اور پھر جب ان تربیت یافتہ عوام کی حکومت قائم ہوئی تو انسانی معاشرہ عدل و انصاف کی خوش گواریوں سے جھلک اٹھا۔ اِن میں قاضی چنے گئے تو انہوں نے انصاف کو مقدم رکھا، وکیل بنائے گئے تو قانون کا بول بالا ہوا ،پولیس والے بنائے گئے تو عوام کی جان و مال کے محافظ بنے۔ ڈاکٹر بنے تو دُکھی انسانیت کا سہارا بنے ،کاروباری بنے تو دیانت دار ملازم بنے تو وفادار مزدور بنے تو ایمان دار۔
ملک پاکستان کے اندر وہ تمام برائیاں جو آج پورے عروج پرہیں یہ کسی وجہ جواز کے نہیں اب ہمارے معاشرے میں عزت کا معیار کسی عملی صلاحیت پرنہیں بلکہ دولت اور اس کی فراوانی پر ہے ظاہر ہے کہ اس معیار کو قائم رکھنے کے لئےجائز اور ناجائز میں امتیاز کی ضرورت نہیں روپے کی ضرورت ہے یہی رجحان تمام بیماریوں کی بنیادی جڑ ہے اس نےہی معاشرے میں طبقاتی ناہمواری اور لاقانونیت کا جنم دیا ہے ۔ علامہ المشرقیؒ نےاس بیماری کو شروع سے بھانپ لیا تھا انہوں نے اس کے سدباب کے لئے اوپر سے نیچے تک خاکی لباس پہننے کی شرط عائد کردی ہر چھوٹے بڑے ہر ادنی ٰ و اعلیٰ کے کندھے پربیلچے کا شرمندہ کن اوزار رکھ کر سب کے عمل کا ایک معیار مقرر کردیا۔ اس طرح معاشی تفاخر اور سٹیٹس کی تمام بک بک سرے سے ہی ختم کر دی ۔ یہی حکمت عملی ماؤے تنگ نےبھی اختیار کی اور ساٹھ کروڑ چینوں کو یکساں لباس پہنوا کر عام مساوات کا ماحول پیدا کردیاتھا ۔ لہٰذا آج بھی ہمیں عدم مساوات کے بھڑکتے ہوئے جہنم کو ٹھنڈا کرنےکے لئے المشرقیؒ کی تجویز و تدبیر سےاستفادہ کرنا ہوگا۔

No comments:

Post a Comment

Designed By Blogger Templates